عجیب رات تھی وہ رات میں نہیں آیا
عجیب رات تھی وہ رات میں نہیں آیا
کہ میرے خواب طلسمات میں نہیں آیا
کھلے کواڑ مرے گھر کے بین کرتے رہے
کوئی بھی ہاتھ مرے ہاتھ میں نہیں آیا
وہ اس لیے ہی تو آیا تھا پھول کھل جائیں
پھر اس کے بعد وہ باغات میں نہیں آیا
گنہ معاف میں اس کو خدا بنا بیٹھا
خدا خیال ملاقات میں نہیں آیا
میں چاہتا تھا اسے چھو کے دیکھ لوں لیکن
وہ آسمان مرے ہاتھ میں نہیں آیا
فرات تو نے بہتر کی تشنگی دیکھی
تو پھر بھی خیمۂ سادات میں نہیں آیا