Om Awasthi

اوم اوستھی

  • 1996

اوم اوستھی کی غزل

    رہ کر زمیں پہ چاند کے دیدار کے لئے

    رہ کر زمیں پہ چاند کے دیدار کے لئے دفتر میں دن گزرتے ہیں اتوار کے لئے اتنا تو مسئلہ بھی نہ تھا جتنا شور ہے بس بھیڑ جٹ گئی ہے یہ بیکار کے لئے بے وجہ کھینچ تان میں کشتی ڈبو گئے جب کہ سبھی کو جانا تھا اس پار کے لئے بس حال چال کا یہ دکھاوا نہ کیجیے رب تک دعائیں بھیجئے بیمار کے ...

    مزید پڑھیے

    الگ ہونے پہ آمادہ ہوا ہے

    الگ ہونے پہ آمادہ ہوا ہے یقیناً دکھ بہت زیادہ ہوا ہے بچھڑ کر باغ سے بھونرے نے پوچھا یہ گل کیوں سوکھ کر کانٹا ہوا ہے پرندے کو خبر پہنچاؤں کیسے شجر میں جال اک ڈالا ہوا ہے میں کیول روح چھو پاؤں گا اس کی یہی شروعات میں وعدہ ہوا ہے محض قسمیں وہ کھائے جا رہا ہے بدن پر جھوٹ کو لادا ...

    مزید پڑھیے

    مطلب پتا نہیں تھا بتانے چلے گئے

    مطلب پتا نہیں تھا بتانے چلے گئے ہم عشق کرکے عشق نبھانے چلے گئے ہم نے نظر کو اپنی ٹکایا تھا چاند پر پھر خواب لے کے چاند کو پانے چلے گئے اس کو عجب سے حال میں دیکھا تھا ایک دن موسم سے پھر یہ رنگ سہانے چلے گئے اب پیڑ خود کی چھانو میں بیٹھا ہے رات دن سب لوگ دور شہر کمانے چلے گئے ہم ...

    مزید پڑھیے

    اک ندی کی دھار کا لے کر سہارا آ گئے

    اک ندی کی دھار کا لے کر سہارا آ گئے ساری دنیا گھوم کے تجھ تک دوبارہ آ گئے کیوں اچانک نیند ان آنکھوں سے غائب ہو گئی آپ خوابوں میں کسے دے کر اشارہ آ گئے دوستی میں کھیل مطلب کا نہیں کھیلا گیا سو اسی رشتے میں ہم لے کر خسارہ آ گئے وہ ہمارا عکس تھا ہم سے جدا ہوتا کہاں کرکے گھر کے آئنوں ...

    مزید پڑھیے

    اس کی یادوں کو کبھی دل سے نکالا نہ گیا

    اس کی یادوں کو کبھی دل سے نکالا نہ گیا سبز ڈالی تھی جہاں پیڑ وہ کاٹا نہ گیا ہجر میں ہم نے ترے خوب غزل لکھ ڈالی بے وفائی کا یہ احسان بھلایا نہ گیا تیرے ہونے کا مجھے اب بھی بھرم ہوتا ہے جسم سے دور کبھی جیسے کی سایا نہ گیا رات تنہائی میں دو لوگ جگے رہتے ہے ہجر والے یا جنہیں ہجر میں ...

    مزید پڑھیے