الگ ہونے پہ آمادہ ہوا ہے

الگ ہونے پہ آمادہ ہوا ہے
یقیناً دکھ بہت زیادہ ہوا ہے


بچھڑ کر باغ سے بھونرے نے پوچھا
یہ گل کیوں سوکھ کر کانٹا ہوا ہے


پرندے کو خبر پہنچاؤں کیسے
شجر میں جال اک ڈالا ہوا ہے


میں کیول روح چھو پاؤں گا اس کی
یہی شروعات میں وعدہ ہوا ہے


محض قسمیں وہ کھائے جا رہا ہے
بدن پر جھوٹ کو لادا ہوا ہے


محبت کا یہی حاصل رہا ہے
محبت کرکے پچھتاوا ہوا ہے