Obaidurrahman Niyazi

عبید الرحمان نیازی

عبید الرحمان نیازی کی غزل

    ساری دنیا گنوا کے بیٹھا ہوں

    ساری دنیا گنوا کے بیٹھا ہوں اپنی دنیا بنا کے بیٹھا ہوں عمر بھر کی تھکان ہو گئی ہے ایک لمحہ بتا کے بیٹھا ہوں ٹوٹا پتا ہوں اور یہ سوچتا ہوں کس سے دامن چھڑا کے بیٹھا ہوں کیا خبر کوئی رنگ بھر ہی دے چند خاکے بنا کے بیٹھا ہوں ایک بھٹکا ہوا پرندہ ہوں ڈال پر سر جھکا کے بیٹھا ہوں کوئی ...

    مزید پڑھیے

    کوہ خدشات سر ہوا ہی نہیں

    کوہ خدشات سر ہوا ہی نہیں پار کیا ہے میں جانتا ہی نہیں میں رکا تھا تو وقت رک جاتا لاکھ روکا مگر رکا ہی نہیں کتنے ارماں سے کھٹکھٹایا تھا ہائے افسوس در کھلا ہی نہیں اب کوئی چوٹ لگ بھی جائے تو کیا دل میں اب زخم کی جگہ ہی نہیں ایک لمحہ جسے میں ہار چکا کیسے کہہ دوں وہ میرا تھا ہی ...

    مزید پڑھیے

    پسند نا پسند کا کوئی بھی ضابطہ نہیں

    پسند نا پسند کا کوئی بھی ضابطہ نہیں کبھی بھلا بھی ہے برا کبھی برا برا نہیں تو جیسے دھوپ میں چمکتا برف پوش کوہسار میں کالی رات کا دیا تو میرے حسن سا نہیں وہ ہنستا بستا شخص تھا دلوں پہ سب کے نقش تھا پھر ایک دن کہیں گیا کہاں گیا پتا نہیں یہ کیا حسین باغ ہے یہاں ہیں کتنی تتلیاں وہ ...

    مزید پڑھیے

    کھو کر دن کی باتوں میں

    کھو کر دن کی باتوں میں گھبراتا ہوں راتوں میں اندیشوں کا جنگل ہے نفرت کی سوغاتوں میں ساون میں آنسو یعنی برساتیں برساتوں میں نادیدہ شیرینی ہے سچے رشتے ناطوں میں خستہ حالی دیکھی ہے مزدوروں کے ہاتھوں میں کٹیا لے کر کتنے خواب ڈوبی تھی برساتوں میں یادیں گیت سناتی ہیں تنہا ساکت ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2