Noshi Gilani

نوشی گیلانی

نوشی گیلانی کی غزل

    یہ نام ممکن نہیں رہے گا مقام ممکن نہیں رہے گا

    یہ نام ممکن نہیں رہے گا مقام ممکن نہیں رہے گا غرور لہجے میں آ گیا تو کلام ممکن نہیں رہے گا یہ برف موسم جو شہر جاں میں کچھ اور لمحے ٹھہر گیا تو لہو کا دل کی کسی گلی میں قیام ممکن نہیں رہے گا تم اپنی سانسوں سے میری سانسیں الگ تو کرنے لگے ہو لیکن جو کام آساں سمجھ رہے ہو وہ کام ممکن ...

    مزید پڑھیے

    اب کس سے کہیں اور کون سنے جو حال تمہارے بعد ہوا

    اب کس سے کہیں اور کون سنے جو حال تمہارے بعد ہوا اس دل کی جھیل سی آنکھوں میں اک خواب بہت برباد ہوا یہ ہجر ہوا بھی دشمن ہے اس نام کے سارے رنگوں کی وہ نام جو میرے ہونٹوں پر خوشبو کی طرح آباد ہوا اس شہر میں کتنے چہرے تھے کچھ یاد نہیں سب بھول گئے اک شخص کتابوں جیسا تھا وہ شخص زبانی یاد ...

    مزید پڑھیے

    یہی نہیں کوئی طوفاں مری تلاش میں ہے

    یہی نہیں کوئی طوفاں مری تلاش میں ہے کہ موسم غم جاناں مری تلاش میں ہے وصال رت ہے مگر دل کو ایسا لگتا ہے ستارۂ شب ہجراں مری تلاش میں ہے میں فیصلے کی گھڑی سے گزر چکی ہوں مگر کسی کا دیدۂ حیراں مری تلاش میں ہے یہ بے یقین سی آسودگی بتاتی ہے کہ ایک قریۂ ویراں مری تلاش میں ہے میں تیرگی ...

    مزید پڑھیے

    ہر جانب ویرانی بھی ہو سکتی ہے

    ہر جانب ویرانی بھی ہو سکتی ہے صبح کی رنگت دھانی بھی ہو سکتی ہے جب کشتی ڈالی تھی کس نے سوچا تھا دریا میں طغیانی بھی ہو سکتی ہے نئے سفر کے نئے عذاب اور نئے گلاب صورت حال پرانی بھی ہو سکتی ہے ہر پل جو دل کو دہلائے رکھتی ہے کچھ بھی نہیں حیرانی بھی ہو سکتی ہے سفر ارادہ کر تو لیا پر ...

    مزید پڑھیے

    ہجر کی شب میں قید کرے یا صبح وصال میں رکھے

    ہجر کی شب میں قید کرے یا صبح وصال میں رکھے اچھا مولا تیری مرضی تو جس حال میں رکھے کھیل یہ کیسا کھیل رہی ہے دل سے تیری محبت اک پل کی سرشاری دے اور دنوں ملال میں رکھے میں نے ساری خوشبوئیں آنچل سے باندھ کے رکھیں شاید ان کا ذکر تو اپنے کسی سوال میں رکھے کس سے تیرے آنے کی سرگوشی کو ...

    مزید پڑھیے

    یہ دل بھلاتا نہیں ہے محبتیں اس کی

    یہ دل بھلاتا نہیں ہے محبتیں اس کی پڑی ہوئی تھیں مجھے کتنی عادتیں اس کی یہ میرا سارا سفر اس کی خوشبوؤں میں کٹا مجھے تو راہ دکھاتی تھیں چاہتیں اس کی گھری ہوئی ہوں میں چہروں کی بھیڑ میں لیکن کہیں نظر نہیں آتیں شباہتیں اس کی میں دور ہونے لگی ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ چھاؤں جیسی تھیں ...

    مزید پڑھیے

    دشمن جاں کئی قبیلے ہوئے

    دشمن جاں کئی قبیلے ہوئے پھر بھی خوشبو کے ہاتھ پیلے ہوئے بدگمانی کے سرد موسم میں میری گڑیا کے ہاتھ نیلے ہوئے جب زمیں کی زباں چٹخنے لگی تب کہیں بارشوں کے حیلے ہوئے وقت نے خاک وہ اڑائی ہے شہر آباد تھے جو ٹیلے ہوئے جب پرندوں کی سانس رکنے لگی تب ہواؤں کے کچھ وسیلے ہوئے کوئی بارش ...

    مزید پڑھیے

    عجیب خواہش ہے شہر والوں سے چھپ چھپا کر کتاب لکھوں

    عجیب خواہش ہے شہر والوں سے چھپ چھپا کر کتاب لکھوں تمہارے نام اپنی زندگی کی کتاب کا انتساب لکھوں وہ لمحہ کتنا عجیب تھا جب ہماری آنکھیں گلے ملی تھیں میں کس طرح اب محبتوں کی شکستگی کے عذاب لکھوں تمہی نے میرے اجاڑ رستوں پہ خواہشوں کے دیے جلائے تمہی نے چاہا تھا خشک ہونٹوں سے چاہتوں ...

    مزید پڑھیے

    تتلیاں جگنو سبھی ہوں گے مگر دیکھے گا کون

    تتلیاں جگنو سبھی ہوں گے مگر دیکھے گا کون ہم سجا بھی لیں اگر دیوار و در دیکھے گا کون اب تو ہم ہیں جاگنے والے تری خاطر یہاں ہم نہ ہوں گے تو ترے شام و سحر دیکھے گا کون جس کی خاطر ہم سخن سچائی کے رستے چلے جب وہی اس کو نہ دیکھے تو ہنر دیکھے گا کون سب نے اپنی اپنی آنکھوں پر نقابیں ڈال ...

    مزید پڑھیے

    کچھ بھی کر گزرنے میں دیر کتنی لگتی ہے

    کچھ بھی کر گزرنے میں دیر کتنی لگتی ہے برف کے پگھلنے میں دیر کتنی لگتی ہے اس نے ہنس کے دیکھا تو مسکرا دیے ہم بھی ذات سے نکلنے میں دیر کتنی لگتی ہے ہجر کی تمازت سے وصل کے الاؤ تک لڑکیوں کے جلنے میں دیر کتنی لگتی ہے بات جیسی بے معنی بات اور کیا ہوگی بات کے مکرنے میں دیر کتنی لگتی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3