Noshi Gilani

نوشی گیلانی

نوشی گیلانی کی نظم

    نا دیدہ رفاقت میں

    کچھ بھی تو نہیں ویسا جیسا تجھے سوچا تھا جتنا تجھے چاہا تھا سوچا تھا ترے لب پر کچھ حرف دعاؤں کے کچھ پھول وفاؤں کے مہکیں گے مری خاطر کچھ بھی تو نہیں ویسا جیسا تجھے سوچا تھا محسوس یہ ہوتا ہے دکھ جھیلے تھے جو اب تک بے نام مسافت میں لکھنے کی محبت میں پڑھنے کی ضرورت میں بے سود ریاضت ...

    مزید پڑھیے

    حیرت

    نہ گفتگو کا کمال آہنگ نہ بات کے بے مثال معنی نہ خال و خد میں وہ جاذبیت جو جسم و جاں کو اسیر کر لے نہ مشترک کوئی عکس خواہش مگر یہ کیا ہے میں کس کی خاطر وفا کے رستوں پہ لکھ رہی ہوں مسافرت کی نئی کہانی

    مزید پڑھیے

    اداس شام کی ایک نظم

    وصال رت کی یہ پہلی دستک ہی سرزنش ہے کہ ہجر موسم نے رستے رستے سفر کا آغاز کر دیا ہے تمہارے ہاتھوں کا لمس جب بھی مری وفا کی ہتھیلیوں پر حنا بنے گا تو سوچ لوں گی رفاقتوں کا سنہرا سورج غروب کے امتحان میں ہے ہمارے باغوں سے گر کبھی تتلیوں کی خوشبو گزر نہ پائے تو یہ نہ کہنا کہ تتلیوں نے ...

    مزید پڑھیے

    کون روک سکتا ہے

    لاکھ ضبط خواہش کے بے شمار دعوے ہوں اس کو بھول جانے کے بے پنہ ارادے ہوں اور اس محبت کو ترک کر کے جینے کا فیصلہ سنانے کو کتنے لفظ سوچے ہوں دل کو اس کی آہٹ پر برملا دھڑکنے سے کون روک سکتا ہے پھر وفا کے صحرا میں اس کے نرم لہجے اور سوگوار آنکھوں کی خوشبوؤں کو چھونے کی جستجو میں رہنے ...

    مزید پڑھیے

    ایک جیسا مکالمہ

    بچھڑتے لمحوں میں اس نے مجھ سے کہا تھا دیکھو ''ہماری راہیں جدا جدا ہیں مگر ہمیں ایک دوسرے کا خیال رکھنا ہے زندگی بھر کسی بھی لمحہ اداسیوں کی فصیل حائل نہ ہونے دینا ہوا کے ہاتھوں پہ لکھتے رہنا جدائیوں کے تمام قصے قدم قدم پر جو پیش آئیں وہ سانحے بھی نظر میں رکھنا میں جب بھی لوٹا تو ...

    مزید پڑھیے

    ورثہ

    بیٹیاں بھی تو ماؤں جیسی ہوتی ہیں ضبط کے زرد آنچل میں اپنے سارے درد چھپا لیتی ہیں روتے روتے ہنس پڑتی ہیں ہنستے ہنستے دل ہی دل میں رو لیتی ہیں خوشی کی خواہش کرتے کرتے خواب اور خاک میں اٹ جاتی ہیں سو حصوں میں بٹ جاتی ہیں گھر کے دروازے پر بیٹھی امیدوں کے ریشم بنتے ساری عمر گنوا دیتی ...

    مزید پڑھیے

    مری آواز سنتے ہو

    میں تنہا ہجر کے جنگل کے غاروں میں جلاتی ہوں سخن کے وہ دیئے جن کو ابھی باہر کی زہریلی ہوائیں اجنبی محسوس کرتی ہیں ابھی یہ روشنی جو سچ کی خوشبو کی حفاظت کے لیے تاریکیوں سے لڑ رہی ہے، نا شناسی کے غبار آلود رستوں سے گزرتی ہے ابھی جگنو شبوں میں اپنے ہونے کی گواہی تک نہیں دیتے ابھی تو ...

    مزید پڑھیے

    ہوا کو آوارہ کہنے والو

    ہوا کو آوارہ کہنے والو کبھی تو سوچو، کبھی تو لکھو ہوائیں کیوں اپنی منزلوں سے بھٹک گئی ہیں نہ ان کی آنکھوں میں خواب کوئی نہ خواب میں انتظار کوئی اب ان کے سارے سفر میں صبح یقین کوئی نہ شام صد اعتبار کوئی نہ ان کی اپنی زمین کوئی نہ آسماں پر کوئی ستارہ نہ کوئی موسم نہ کوئی خوشبو کا ...

    مزید پڑھیے

    ہجر کے پر بھیگ جائیں

    کہاں تک خیمۂ دل میں چھپائیں اپنی آسوں اور پیاسوں کو کہاں تک خوف کے بے شکل صحرا کی ہتھیلی پر کریدے جائیں آنکھیں اور لکیریں روشنی کی پھر نہ بن پائیں ہم انساں ہو کے بھی سائے کی خوشبو کو ترس جائیں چلو اک دوسرے کی خواہشوں کی دھوپ میں جلتے ہوئے آنگن کی ویرانی میں آنکھیں بند کر لیں ...

    مزید پڑھیے

    سمجھ میں کچھ نہیں آتا

    ہمیں کس ہاتھ کی محبوب ریکھاؤں میں رہنا تھا کس دل میں اترنا تھا چمکنا تھا کن آنکھوں میں کہاں پر پھول بننا تھا تو کب خوشبو کی صورت کوئے جاناں سے گزرنا تھا سمجھ میں کچھ نہیں آتا ہمیں کس قریۂ آب و ہوا کے سنگ رہنا تھا کہاں شامیں گزرنی تھیں کہاں مہتاب راتوں میں کسی کو یاد کرنا تھا کسی ...

    مزید پڑھیے