Noorul Ain Qaisar Qasmi

نور العین قیصر قاسمی

نور العین قیصر قاسمی کی غزل

    لمحہ لمحہ اک نئی تفسیر ہے

    لمحہ لمحہ اک نئی تفسیر ہے زندگی کیسی تری تصویر ہے دیکھے دیتی ہے کیا اب یہ صدی ہر کسی کے ہاتھ میں شمشیر ہے آپ میرے سامنے بیٹھے ہیں یہ خواب ہے یا خواب کی تعبیر ہے آئنے پر گفتگو مت کیجیے آئنہ ناقابل تسخیر ہے ٹوٹنا گرنا بکھرنا ایک دن ہر عمارت کی یہی تقدیر ہے

    مزید پڑھیے

    اپنے افکار و انداز نیا دیتا ہوں

    اپنے افکار و انداز نیا دیتا ہوں خشک منظر میں حسیں رنگ ملا دیتا ہوں کتنا ہوتا ہے مرے دل کو خوشی کا احساس کوئی پودا جو سر راہ لگا دیتا ہوں ویسے تو سارے زمانے سے چھپا ہے مرا حال تم اگر پوچھ رہے ہو تو بتا دیتا ہوں روز ہوتی ہے ہواؤں سے لڑائی میری روز دہلیز پہ اک شمع جلا دیتا ہوں کیا ...

    مزید پڑھیے

    خدا پر ہی سدا ایمان رکھنا

    خدا پر ہی سدا ایمان رکھنا بہر صورت اسی کا دھیان رکھنا تعلق ختم تو تم کر رہے ہو مگر کچھ صلح کا امکان رکھنا ملاؤ ہاتھ سب کھل کے لیکن مزاجوں کی بھی کچھ پہچان رکھنا عجب فطرت کسی کی ہو گئی ہے نگاہوں کو مری حیران رکھنا کٹھن ہے راہ سچائی کی قیصرؔ ہتھیلی پر ہمیشہ جان رکھنا

    مزید پڑھیے

    خوشی میں غم کی حالت کر کے دیکھوں

    خوشی میں غم کی حالت کر کے دیکھوں اسے اپنی ضرورت کر کے دیکھوں زمانہ کہہ رہا ہے جانے کیا کیا کبھی میں بھی محبت کر کے دیکھوں نظر میں اب یہی اک راستا ہے کہ خوابوں کو حقیقت کر کے دیکھوں چلے ہیں آسماں چھونے کئی لوگ ذرا میں بھی تو ہمت کر کے دیکھوں خود اپنے آپ سے اک روز قیصرؔ میں اپنی ...

    مزید پڑھیے

    بلندیوں پہ زمانے ہے کیا کیا جائے

    بلندیوں پہ زمانے ہے کیا کیا جائے ہمیں بھی چاند پہ جانا ہے کیا کیا جائے وہ جس کے سامنے کھلتے نہیں ہیں لب میرے اسی کو شعر سنانا ہے کیا کیا جائے ہوس کی زد پہ تڑپتی سسکتی دنیا میں وقار اپنا بچانا ہے کیا کیا جائے نکل پڑا ہے کوئی گھر سے بجلیاں لے کر مرا چمن ہی نشانہ ہے کیا کیا ...

    مزید پڑھیے

    خزاں کی زد پہ تھا دشمن کی بھی نگاہ میں تھا

    خزاں کی زد پہ تھا دشمن کی بھی نگاہ میں تھا وہ سایہ دار شجر جو ہماری راہ میں تھا زمانہ یاد بھی کرتا تو کس طرح ہم کو ہمارا نام فقیروں میں تھا نہ شاہ میں تھا بلندیوں سے گرا تو زمین بھی نہ ملی وجود اپنا سنبھالے ہوئے وہ چاہ میں تھا جنہیں غرور ہواؤں پہ تھا وہ خار ہوئے وہ سر بلند رہا جو ...

    مزید پڑھیے

    بڑی حیرت ہے وہ زندہ ملا ہے

    بڑی حیرت ہے وہ زندہ ملا ہے جسے ہر موڑ پر دھوکا ملا ہے تلاش حق میں میں نکلا ہوں جب بھی نئی منزل نیا رستا ملا ہے ملا بھی کیا کسی کو تم سے مل کر بکھر جانے کا اندیشہ ملا ہے نہیں پیاسے کو قطرہ بھی میسر جو ہے سیراب اسے دریا ملا ہے مرے گھر ڈھونڈنے والوں کو اکثر فقط اک ٹوٹا آئینہ ملا ...

    مزید پڑھیے

    ہر اک محاذ کو تنہا سنبھالے بیٹھے ہیں

    ہر اک محاذ کو تنہا سنبھالے بیٹھے ہیں ہم ایک دل میں کئی روگ پالے بیٹھے ہیں ابھی نہ زور دکھائے یہ کہہ دو آندھی سے ابھی ہم اپنے ارادوں کو ٹالے بیٹھے ہیں ستم گروں نے بہاروں پہ کر لیا قبضہ چمن کو خون جگر دینے والے بیٹھے ہیں بتائیں کیا کہ ہمارے ہی رہنما اب تو ہماری راہ میں خنجر نکالے ...

    مزید پڑھیے

    حیرت و خوف کے محور سے نکل پڑتے ہیں

    حیرت و خوف کے محور سے نکل پڑتے ہیں آؤ آسیب زدہ گھر سے نکل پڑتے ہیں جسم کو اور سمیٹوں تو رگ جاں رک جائے پاؤں پھیلاؤں تو چادر سے نکل پڑتے ہیں وہ کیا کرتا ہے بندوں کی حفاظت یوں بھی راستے بیچ سمندر سے نکل پڑتے ہیں صبر مظلوم کا جب حد سے گزرتا ہے تو پھر وار ٹوٹے ہوئے خنجر سے نکل پڑتے ...

    مزید پڑھیے