خزاں کی زد پہ تھا دشمن کی بھی نگاہ میں تھا

خزاں کی زد پہ تھا دشمن کی بھی نگاہ میں تھا
وہ سایہ دار شجر جو ہماری راہ میں تھا


زمانہ یاد بھی کرتا تو کس طرح ہم کو
ہمارا نام فقیروں میں تھا نہ شاہ میں تھا


بلندیوں سے گرا تو زمین بھی نہ ملی
وجود اپنا سنبھالے ہوئے وہ چاہ میں تھا


جنہیں غرور ہواؤں پہ تھا وہ خار ہوئے
وہ سر بلند رہا جو تری پناہ میں تھا


مرے خلاف ہوا ہے جو فیصلہ قیصرؔ
مرا حریف بھی شامل مرے گواہ میں تھا