خوشی میں غم کی حالت کر کے دیکھوں

خوشی میں غم کی حالت کر کے دیکھوں
اسے اپنی ضرورت کر کے دیکھوں


زمانہ کہہ رہا ہے جانے کیا کیا
کبھی میں بھی محبت کر کے دیکھوں


نظر میں اب یہی اک راستا ہے
کہ خوابوں کو حقیقت کر کے دیکھوں


چلے ہیں آسماں چھونے کئی لوگ
ذرا میں بھی تو ہمت کر کے دیکھوں


خود اپنے آپ سے اک روز قیصرؔ
میں اپنی ہی شکایت کر کے دیکھوں