وہی محتسب کی ملامتیں وہی ایک واضح حسیں مری
وہی محتسب کی ملامتیں وہی ایک واضح حسیں مری
وہی رنگ رنگ سبو مرا وہی داغ داغ جبیں مری
ترا شہر شہر عجیب ہے یہاں کون ہے جو غریب ہے
کوئی کہہ رہا ہے فلک مرا کوئی کہہ رہا ہے زمیں مری
مری حسرتوں کے دیار میں تری جستجو سے بہار ہے
ترا نقش پا ہے جہاں کہیں ہے جبین شوق وہیں مری
اسی آئینے میں کرن کرن کسی حوروش کی تجلیاں
یہی دل ہے جام جہاں نما یہی دل ہے خلد بریں مری
کئی آفتاب کئی قمر مرے سوز دل سے ہیں نور گر
کہ مثال شمع سلگ رہی ہے ازل سے جان حزیں مری
مرے آنسوؤں نے کہا نہ تھا کہ بچھڑ کے پھر نہ ملیں گے ہم
تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو وہ نگاہ باز پسیں مری