یہاں کسی نے چراغ وفا جلایا تھا

یہاں کسی نے چراغ وفا جلایا تھا
تبھی یہ غم کدۂ دل بھی جگمگایا تھا


جنوں کی شوخ اداؤں نے فاش کر ہی دیا
وہ ایک راز خرد نے جسے چھپایا تھا


شب بہار کی شہزادیو! خبر ہے تمہیں
ابھی ابھی کوئی ناشاد مسکرایا تھا


سلگ رہی ہیں امنگیں تو سوچتا ہوں میں
بہت ہی خشک تری زلفوں کا نرم سایہ تھا


یہ ماہتاب سے کس نے مجھے صدا دی تھی
یہ کون دور سے مرے قریب آیا تھا