زلزلہ آیا وہ دل میں وقت کی رفتار سے

زلزلہ آیا وہ دل میں وقت کی رفتار سے
خود بخود تصویر تیری گر پڑی دیوار سے


چپکے چپکے کھینچتا جاتا ہوں کانٹوں کا حصار
میں کہ اب ڈرنے لگا ہوں پھول کی مہکار سے


ہم بلا نوشوں نے زہر آگہی بھی پی لیا
چلتے چلتے ہم بھی ٹھوکر کھا گئے کہسار سے


جن کو آنکھوں سے لگایا جن کو رو رو کر پڑھا
ہائے وہ خط بھی نظر آنے لگے بے کار سے


دیدۂ یعقوب ہر چہرے میں ہے گریہ کناں
ہم بہت اکتا گئے ہیں مصر کے بازار سے


ہم سے شکوہ کر رہا تھا آج دامان تہی
توڑ لائے ماہ و انجم فکر کے گلزار سے


نورؔ صاحب کھل نہ جائے ترک الفت کا بھرم
آپ کی خاموشیوں سے آپ کے اشعار سے