ملا ہے اپنے ہونے کا نشاں اک
ملا ہے اپنے ہونے کا نشاں اک سنی صدیوں پرانی داستاں اک ہماری سوچ تو ملتی ہے کتنی مگر کیوں کر نہیں اپنی زباں اک مرا ہر اک یقیں جھٹلا رہا ہے وہ جو مجھ میں مکیں ہے بد گماں اک ہوئے ہیں بے معانی بال و پر اب ملا نیچے زمیں کے آسماں اک برے لوگوں سے ملواتا ہے مجھ کو جتاتا ہے وہی اچھا یہاں ...