Nilofar Afzal

نیلوفر افضل

نیلوفر افضل کی غزل

    مچا ہوا ہے خداؤں کی ان کہی کا شور

    مچا ہوا ہے خداؤں کی ان کہی کا شور مگر وہ گونج کہ کھا جائے گی سبھی کا شور تمام رات مہکتا تھا اس کی ٹیبل پر گلاب تازہ کی خوشبو میں فروری کا شور شجر کی تاب سماعت پہ داد بنتی ہے یہ سنتا آیا ہے صدیوں سے آدمی کا شور اے ناخداؤ سمندر کو مت سنا دینا ہماری ناؤ میں اسباب کی کمی کا شور بڑے ...

    مزید پڑھیے

    کماں سے تیر چلا اور صبا نے چپکے سے (ردیف .. ا)

    کماں سے تیر چلا اور صبا نے چپکے سے ہلا کے ہاتھ پرندے کو ہوشیار کیا ہمیں نے صحن چمن میں اڑائی خاک وفا ہمیں نے دشت میں پھولوں کا کاروبار کیا ہم انتظام بہاراں میں غرق تھے اس دم جب اس نے حیلہ اسباب انتشار کیا

    مزید پڑھیے

    مقتل دختر کم نسل سے اٹھتا تھا دھواں (ردیف .. ی)

    مقتل دختر کم نسل سے اٹھتا تھا دھواں مدفن زوجۂ والی میں بڑی برف پڑی میں نے ڈالا جو کوئی واسطہ انگاروں کو یار کل رات انگیٹھی میں بڑی برف پڑی بند کمرے میں مری آنکھ نے سپنے سینکے صحن دالان میں کھڑکی میں بڑی برف پڑی اوس پڑتی رہی مجھ پر مرے ارمانوں پر اور اغیار کی بستی میں بڑی برف ...

    مزید پڑھیے

    اے مرے دوست مرے دشمن جاں خیر تو ہے

    اے مرے دوست مرے دشمن جاں خیر تو ہے تو مرے پاس مرے ساتھ یہاں خیر تو ہے خط دیا تھا انہیں پتھر نہیں آیا اب تک دل کو تشویش ہوئی ہے کہ وہاں خیر تو ہے بات قصداً انہیں آدھی سی سنائی میں نے اب وہ پوچھیں گے کہ کب کون کہاں خیر تو ہے بچ کے اک اور دھماکے سے کیا فون انہیں یاں پہ سب خیر ہے سب ...

    مزید پڑھیے

    سیر بازار جہاں کرتے ہوئے ہم کو چلا (ردیف .. ے)

    سیر بازار جہاں کرتے ہوئے ہم کو چلا دل کی قیمت کا پتہ پھول کی ارزانی سے کن ستاروں نے جڑیں پکڑیں سفال نم میں شب گزیدوں کی سماوات میں گل بانی سے قافلے مثل صبا دل سے گزر جاتے ہیں کون ملتا ہے بھری بھیڑ میں آسانی سے گھر کے ہوتے ہوئے ہم ایسے سفر بخت نجوم ملتے آئے ہیں بہت بے سر و سامانی ...

    مزید پڑھیے

    مٹتے ہوئے حروف کو پڑھنے کی خو کیا کریں

    مٹتے ہوئے حروف کو پڑھنے کی خو کیا کریں سطریں کریدتے ہوئے پوریں لہو کیا کریں نو واردان عشق سے کہہ دیجیے کہ دشت میں وحشت سے قبل ریت سے جا کر وضو کیا کریں انجیل دل میں درج ہوں آیات نقرئی تو پھر ہم بھی سخن کے باب میں کچھ ہاؤ ہو کیا کریں مے خانہ ازل کو وہ دو نین پھر سے لا کے دو جو ...

    مزید پڑھیے

    ان لکھی غزل کے استعارے

    ان لکھی غزل کے استعارے وہ لوگ محبتوں کے مارے ملتے ہیں خدا سے یا پتا نئیں کھڑکی سے اڑا دئے غبارے کمرے کی مسافتوں میں کوئی گزرا ہوا دشت کیوں گزارے رستے سے لگی ہوئیں نگاہیں گردش میں تھکے ہوئے ستارے وہ نام پلٹ کے دیکھتے ہیں میں نے جو کبھی نہیں پکارے

    مزید پڑھیے

    پرانی ناؤ کے تختے پہ دل بناتے ہوئے

    پرانی ناؤ کے تختے پہ دل بناتے ہوئے میں رو پڑوں نہ کوئی خواب گنگناتے ہوئے سہولت ایسی نہیں ہے کہ ہم بھی تم بھی ملیں افق کے خط پہ زمین آسماں ملاتے ہوئے یہ میں تمنا تمنا پگھل نہ جاؤں کہیں دئے کی بجھتی ہوئی لو سے شرم کھاتے ہوئے جزیرے والوں نے سیکھا ہے اپنی آنکھوں سے تمہارا نام ...

    مزید پڑھیے