اے مرے دوست مرے دشمن جاں خیر تو ہے

اے مرے دوست مرے دشمن جاں خیر تو ہے
تو مرے پاس مرے ساتھ یہاں خیر تو ہے


خط دیا تھا انہیں پتھر نہیں آیا اب تک
دل کو تشویش ہوئی ہے کہ وہاں خیر تو ہے


بات قصداً انہیں آدھی سی سنائی میں نے
اب وہ پوچھیں گے کہ کب کون کہاں خیر تو ہے


بچ کے اک اور دھماکے سے کیا فون انہیں
یاں پہ سب خیر ہے سب خیر وہاں خیر تو ہے


خیر ہی خیر لگے مجھ کو بظاہر تو مگر
پوچھ لیتی ہوں مروت میں کہ ہاں خیر تو ہے