ان لکھی غزل کے استعارے

ان لکھی غزل کے استعارے
وہ لوگ محبتوں کے مارے


ملتے ہیں خدا سے یا پتا نئیں
کھڑکی سے اڑا دئے غبارے


کمرے کی مسافتوں میں کوئی
گزرا ہوا دشت کیوں گزارے


رستے سے لگی ہوئیں نگاہیں
گردش میں تھکے ہوئے ستارے


وہ نام پلٹ کے دیکھتے ہیں
میں نے جو کبھی نہیں پکارے