نذیر قیصر کی غزل

    تنگ ہوئی جاتی ہے زمیں انسانوں پر

    تنگ ہوئی جاتی ہے زمیں انسانوں پر کاش کوئی ہل پھیر دے قبرستانوں پر اب کھیتوں میں کچھ بھی نہیں پانی کے سوا یہ کیسی رحمت برسی دہقانوں پر کبھی کبھی تنہائی میں یوں لگتا ہے جیسے کسی کا ہاتھ ہے میرے شانوں پر میں وہ پچھلے پہر کی ہوا کا جھونکا ہوں دستک دیتا پھرے جو بند مکانوں پر کبھی ...

    مزید پڑھیے

    میں راکھ ہوتا گیا اور چراغ جلتا رہا

    میں راکھ ہوتا گیا اور چراغ جلتا رہا چراغ جلتا رہا آسماں پگھلتا رہا میں بوند بوند جلا وصل کے کنارے پر وہ لہر لہر بدن کروٹیں بدلتا رہا لگی تھی آگ درختوں کے پار دریا میں میں دیکھتا رہا اور آفتاب ڈھلتا رہا بس ایک شام سر دشت کربلا اتری پھر اس کے بعد گھروں سے علم نکلتا رہا گلاب ...

    مزید پڑھیے

    مٹی پہ کوئی نقش بھی ابھرا نہ رہے گا

    مٹی پہ کوئی نقش بھی ابھرا نہ رہے گا گر جائے گی دیوار تو سایہ نہ رہے گا آئے گا نظر دھوپ میں چھت پر وہ کھلے سر گلیوں میں یہ راتوں کا نکلنا نہ رہے گا شاخوں سے نمو پتوں سے چھن جائے گی خوشبو کٹ جائے گا جب پیڑ تو کیا کیا نہ رہے گا سوچوں تو کوئی لفظ ملے گا نہ ترے نام لکھوں گا تو کاغذ کوئی ...

    مزید پڑھیے

    ہر نقش ہے وجود فنا میرے سامنے

    ہر نقش ہے وجود فنا میرے سامنے حیران ہوں یہ رنگ ہے کیا میرے سامنے اک شکل سی ہے میری طرح میرے روبرو اک حرف سا ہے میرے سوا میرے سامنے گم سم کھڑی ہے میری صدا میرے آس پاس دیوار بن گئی ہے ہوا میرے سامنے کھلتا نہیں کہ آئینۂ کائنات میں کیا ہے مثال عکس نوا میرے سامنے جنگل کا وہ سفر بھی ...

    مزید پڑھیے

    میری آنکھوں کو مری شکل دکھا دے کوئی

    میری آنکھوں کو مری شکل دکھا دے کوئی کاش مجھ کو مرا احساس دلا دے کوئی غرض اس سے نہیں وہ کون ہے کس بھیس میں ہے میں کہاں پر ہوں مجھے میرا پتا دے کوئی ڈھونڈھتا پھرتا ہوں یوں اپنے ہی قدموں کے نشاں جیسے مجھ کو مری نظروں سے چھپا دے کوئی دل کی تختی سر بازار لیے پھرتا ہوں کاش اس پر تری ...

    مزید پڑھیے

    جب کھلا بادبان ہاتھوں میں

    جب کھلا بادبان ہاتھوں میں آ گیا آسمان ہاتھوں میں شعلہ تھا وہ گلاب تھا کیا تھا پڑ گئے ہیں نشان ہاتھوں میں گرتے جاتے ہیں پھول بستر پر کھلتا جاتا ہے تھان ہاتھوں میں اس نے ہاتھوں پہ ہونٹ کیا رکھے آ گئی ساری جان ہاتھوں میں پھول کیا کیا کھلاتی جاتی ہے کوئی شاخ گمان ہاتھوں میں وہی ...

    مزید پڑھیے

    دیا جلایا دونوں نے

    دیا جلایا دونوں نے دیکھا سایا دونوں نے لکھ کر سادہ کاغذ پر نام بتایا دونوں نے آنکھوں اور چراغوں کو ساتھ جگایا دونوں نے دونوں مہک سے بوجھل تھے پھول کھلایا دونوں نے خاموشی کی بوند گری حرف بنایا دونوں نے کمرے میں وہ دونوں تھے شور مچایا دونوں نے دھوپ کی اجلی چادر میں باندھا ...

    مزید پڑھیے

    گلیاں اداس کھڑکیاں چپ در کھلے ہوئے

    گلیاں اداس کھڑکیاں چپ در کھلے ہوئے اکتا گیا ہوں میں تو یہ سب دیکھتے ہوئے ہاتھوں پہ لکھ کے چومتا رہتا ہوں اس کا نام مدت گزر گئی ہے جسے خط لکھے ہوئے خوشبو و رنگ آب و ہوا ساز و خامشی کیا قافلے ہیں دشت خلا میں رکے ہوئے کچھ پوچھتی ہیں پیڑوں کی سرسبز ٹہنیاں کچھ کہہ رہے ہیں راہ میں پتے ...

    مزید پڑھیے

    دل تنگ ہوں مکان کے اندر پڑا ہوا

    دل تنگ ہوں مکان کے اندر پڑا ہوا باہر ابد کا قفل ہے در پر پڑا ہوا مجھ پر گراں گزرتی ہے میری صدا کی گونج چپ ہوں درون گنبد بے در پڑا ہوا ممکن جو ہو تو ایک نظر مڑ کے دیکھ لے اک نقش ہے زمین پہ مٹ کر پڑا ہوا میں ہی نہیں ہوں دن کے بگولے کے ساتھ ساتھ سورج کے پاؤں میں بھی ہے چکر پڑا ہوا کھل ...

    مزید پڑھیے

    خواب کیا تھا جو مرے سر میں رہا

    خواب کیا تھا جو مرے سر میں رہا رات بھر اک شور سا گھر میں رہا اک کرن محراب سے لپٹی رہی ایک سایا ادھ کھلے در میں رہا ٹوٹتی بنتی رہیں پرچھائیاں خواہشوں کا عکس پیکر میں رہا میں سر طاق صدا جل بجھ گیا تو وہ شعلہ تھا کہ پتھر میں رہا پانیوں میں مشعلیں بہتی رہیں آسماں ٹھہرا سمندر میں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4