Nayyar Qureshi Gangohi

نیر قریشی گنگوہی

نیر قریشی گنگوہی کی غزل

    تیری محبتوں کا طلب گار میں بھی ہوں

    تیری محبتوں کا طلب گار میں بھی ہوں ایثار کا وفا کا پرستار میں بھی ہوں مرعوب میں نہیں تری اونچی اڑان سے موج ہوا سے برسر پیکار میں بھی ہوں حرص و ہوس کا دور ہے مجبور ہیں عوام رشوت ادائیگی کا گنہ گار میں بھی ہوں دریا دلی کا تیری اشارہ ملا تو ہے لیکن رہے خیال کہ خوددار میں بھی ...

    مزید پڑھیے

    ہو وہ امیر شہر کہ بھوکا فقیر ہو

    ہو وہ امیر شہر کہ بھوکا فقیر ہو خوش بخت اسے کہیں گے جو روشن ضمیر ہو دولت سے کب خرید سکے گا اسے کوئی غربت میں بھی جو اپنی انا کا اسیر ہو کیوں کر وہ کر سکے گا بھلا اپنا سر بلند ہر خاص و عام کی جو نظر میں حقیر ہو ایسا کہاں زمانے میں پیدا ہوا کوئی اپنی نظیر آپ ہو جو بے نظیر ہو کھاتا ...

    مزید پڑھیے

    جو ہمارا شریک حال رہا

    جو ہمارا شریک حال رہا اس کا ہر دم ہمیں خیال رہا بے نیازی تھی ہر ادا ان کی پیار اپنا مگر بحال رہا ہم نہ گھبرائے حادثوں سے کبھی تکیۂ رب ذوالجلال رہا آہ محنت کشوں کی مجبوری روزی روٹی کا ہی سوال رہا ہو گئی شاہکار ہر تخلیق روبرو جب ترا جمال رہا راہ منزل ہوئی بہت آساں ہم سفر جب بھی ...

    مزید پڑھیے

    کھڑکیاں دل کی کھول اے بھائی

    کھڑکیاں دل کی کھول اے بھائی حسن ظن پھر ٹٹول اے بھائی حرف شیریں ہی بول اے بھائی شہد کانوں میں گھول اے بھائی تیرے گاہک نہ ٹوٹ جائیں کہیں کم تو ہرگز نہ تول اے بھائی ہیں یگانے بھی اپنے مطلب کے بند آنکھیں تو کھول اے بھائی کیسے پیتل بکے گا سونے میں جھول پھر بھی ہے جھول اے ...

    مزید پڑھیے

    یوں زندگی کی ہم نے سیہ رات کاٹ دی

    یوں زندگی کی ہم نے سیہ رات کاٹ دی بن چھت کے گھر میں جیسے کہ برسات کاٹ دی آتا ہو ملک و قوم کی عزت پہ جس سے حرف ہم نے خدا گواہ وہ ہر بات کاٹ دی گزری جو ناگوار ہمارے ضمیر کو مل بھی گئی تو ہم نے وہ سوغات کاٹ دی بن جائے وجہ دشمنی جو دو گھروں کے بیچ بچوں کی ہم نے ایسی ملاقات کاٹ دی طوفاں ...

    مزید پڑھیے

    خانوں میں خود ہی بٹ کے اب انسان رہ گیا

    خانوں میں خود ہی بٹ کے اب انسان رہ گیا دیکھا جب اپنا حشر پریشان رہ گیا پرکھوں کی شاندار حویلی کا ذکر چھوڑ آباد کر کھنڈر کو جو ویران رہ گیا گرد سفر میں پھول سے چہرے اتر گئے آئینہ ان کو دیکھ کے حیران رہ گیا دل بھر گیا ہے اپنا مسافت کے شوق میں منزل ہے دور رستہ بھی سنسان رہ گیا ہم ...

    مزید پڑھیے

    کل اس کے نیک بننے کا امکان بھی تو ہے

    کل اس کے نیک بننے کا امکان بھی تو ہے مجرم ضرور ہے مگر انسان بھی تو ہے چہرہ حسیں وہ دشمن ایمان بھی تو ہے لیکن نشاط روح کا سامان بھی تو ہے غربت کی ٹھوکروں میں جو پل کر جواں ہوا طوفاں کے روبرو وہی چٹان بھی تو ہے کل تک اٹھی تھیں جس کی شرافت پہ انگلیاں اپنے کئے پہ آج پشیمان بھی تو ...

    مزید پڑھیے