ہو وہ امیر شہر کہ بھوکا فقیر ہو

ہو وہ امیر شہر کہ بھوکا فقیر ہو
خوش بخت اسے کہیں گے جو روشن ضمیر ہو


دولت سے کب خرید سکے گا اسے کوئی
غربت میں بھی جو اپنی انا کا اسیر ہو


کیوں کر وہ کر سکے گا بھلا اپنا سر بلند
ہر خاص و عام کی جو نظر میں حقیر ہو


ایسا کہاں زمانے میں پیدا ہوا کوئی
اپنی نظیر آپ ہو جو بے نظیر ہو


کھاتا ہے غصہ عقل بشر کو مگر یہ راز
سمجھے گا کب لکیر کا جو بھی فقیر ہو


لگتے ہیں خار دار درختوں پہ پھل مگر
لگتا ہے پھل بھی ویسا کہ جیسا خمیر ہو


کم ظرف کے پڑوس کا پوچھو نہ حال زار
منہ زور ہے غریب ہو چاہے امیر ہو


لیتے ہیں کام ہوش سے چلتا ہے وقت پر
دیدہ وروں کے ہاتھ میں خنجر کہ تیر ہو


عرش ادب کے چاند ستاروں میں ہے شمار
نیرؔ فراقؔ ذوقؔ کہ غالبؔ ہو میرؔ ہو