Nau Bahar Sabir

نوبہار صابر

نوبہار صابر کی غزل

    مرا وجود ہے اک نقش آب کی صورت

    مرا وجود ہے اک نقش آب کی صورت شکست جس کا مقدر ہے خواب کی صورت بکھر نہ جاؤں فضا میں ورق ورق ہو کر ہوا کی زد میں ہوں کہنہ کتاب کی صورت تناؤ حد سے بڑھے گا تو ٹوٹ جائیں گے دلوں کے رابطے تار رباب کی صورت کسی بھی لمحے نکل جاؤں گا ہوا کی طرح مرا بدن ہے حصار حباب کی صورت درون سینہ کوئی ...

    مزید پڑھیے

    ہر ایک شخص خفا مجھ سے انجمن میں تھا

    ہر ایک شخص خفا مجھ سے انجمن میں تھا کہ میرے لب پہ وہی تھا جو میرے من میں تھا کسک اٹھی تھی کچھ ایسی کہ چیخ چیخ پڑوں رہا میں چپ ہی کہ بہروں کی انجمن میں تھا الجھ کے رہ گئی جامے کی دل کشی میں نظر اسے کسی نے نہ دیکھا جو پیرہن میں تھا کبھی میں دشت میں آوارہ اک بگولا سا کبھی میں نکہت گل ...

    مزید پڑھیے

    حیات کیا ہے مآل حیات کیا ہوگا

    حیات کیا ہے مآل حیات کیا ہوگا تو اس پہ غور کرے گا تو غمزدہ ہوگا سنبھل سنبھل کے جو یوں پتھروں پہ چلتا ہے ضرور اس کی حفاظت میں آئنہ ہوگا جو کہہ رہا کہ نیند اڑ گئی ہے آنکھوں سے یہ شخص پہلے بہت خواب دیکھتا ہوگا سنا کیا جو مرا حال اس توجہ سے وہ اجنبی بھی کسی غم میں مبتلا ہوگا کسی کے ...

    مزید پڑھیے

    دور کے جلووں کی شادابی کا دل دادہ نہ ہو

    دور کے جلووں کی شادابی کا دل دادہ نہ ہو تو جسے دریا سمجھتا ہے کہیں صحرا نہ ہو آئنہ کو ایک مدت ہو گئی دیکھے ہوئے وہ جبین شوق جس پر سوچ کا سایہ نہ ہو وہ بھی میرے پاس سے گزرا اسی انداز سے میں نے بھی ظاہر کیا جیسے اسے دیکھا نہ ہو اس طرف کیا طرفہ عالم ہے یہ کھل سکتا نہیں آدمی کا قد اگر ...

    مزید پڑھیے

    جب سخن موج تخیل سے روانی مانگے

    جب سخن موج تخیل سے روانی مانگے مجھ سے ہر لفظ نئی روح معانی مانگے دل وہ دیوانہ کہ دریا سے تو پیاسا لوٹے سامنے موج سراب آئے تو پانی مانگے حافظہ ذہن کا در بند کئے بیٹھا ہے دل بہلنے کو کوئی یاد پرانی مانگے حسن سر تا بہ قدم طرفہ ادائی چاہے عشق تا حد یقیں سادہ گمانی مانگے آئنہ ...

    مزید پڑھیے

    میں خود گیا نہ اس کی ادا لے گئی مجھے

    میں خود گیا نہ اس کی ادا لے گئی مجھے مقتل میں رسم پاس وفا لے گئی مجھے اندر سے کھوکھلا جو تھا بیلون کی طرح چاہا جدھر ہوا نے اڑا لے گئی مجھے اک حرف تھا جو تم نے سنا ان سنا کیا اب ڈھونڈتے پھرو کہ صدا لے گئی مجھے ساحل سے میرا پاؤں پھسلنے کی دیر تھی اک موج بے پناہ بہا لے گئی ...

    مزید پڑھیے

    کبھی دہکتی کبھی مہکتی کبھی مچلتی آئی دھوپ

    کبھی دہکتی کبھی مہکتی کبھی مچلتی آئی دھوپ ہر موسم میں آنگن آنگن روپ بدل کر چھائی دھوپ اس کو زخم ملے دنیا میں جس نے مانگے تازہ پھول جس نے چاہی چھاؤں کی چھتری اس کے سر پر چھائی دھوپ جانے اپنا روپ دکھا کر کس نے پردہ تان لیا کس کی کھوج میں آوارہ ہے انگنائی انگنائی دھوپ چڑھتے سورج ...

    مزید پڑھیے

    کانٹے کو پھول سنگ کو گوہر کہا گیا

    کانٹے کو پھول سنگ کو گوہر کہا گیا اس شہر میں گدا کو سکندر کہا گیا بے چہرہ لوگ حسن کا معیار بن گئے پرچھائیوں کو نور کا پیکر کہا گیا جلاد کو مسیحا نفس کی سند ملی انسان دشمنوں کو پیمبر کہا گیا کچھ جس کے پاس نیش و نمک کے سوا نہ تھا چاک جگر کا اس کو رفو گر کہا گیا کیا شے ہے مصلحت بھی ...

    مزید پڑھیے

    ظلمت شب سے الجھنا ہے سحر ہونے تک

    ظلمت شب سے الجھنا ہے سحر ہونے تک سر کو ٹکرانا ہے دیوار میں در ہونے تک اب تو اس پھول کی نکہت سے مہکتی ہے حیات زخم دل زخم تھا تہذیب نظر ہونے تک دل ہی جلنے دو شب غم جو نہیں کوئی چراغ کچھ اجالا تو رہے گھر میں سحر ہونے تک

    مزید پڑھیے

    ٹوٹتا ہوں کبھی جڑتا ہوں میں

    ٹوٹتا ہوں کبھی جڑتا ہوں میں جاگتی آنکھ کا سپنا ہوں میں اپنی صورت کو ترستا ہوں میں آئنہ ڈھونڈنے نکلا ہوں میں کبھی پنہاں کبھی پیدا ہوں میں کس فسوں گر کا تماشا ہوں میں خلش خار کبھی نکہت گل ہر نفس رنگ بدلتا ہوں میں دیکھیے کس کی نظر پڑتی ہے کب سے شوکیس میں رکھا ہوں میں کوئی تریاک ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2