ظلمت شب سے الجھنا ہے سحر ہونے تک

ظلمت شب سے الجھنا ہے سحر ہونے تک
سر کو ٹکرانا ہے دیوار میں در ہونے تک


اب تو اس پھول کی نکہت سے مہکتی ہے حیات
زخم دل زخم تھا تہذیب نظر ہونے تک


دل ہی جلنے دو شب غم جو نہیں کوئی چراغ
کچھ اجالا تو رہے گھر میں سحر ہونے تک