Nau Bahar Sabir

نوبہار صابر

نوبہار صابر کی غزل

    بادل امبر پہ نہ دھرتی پہ شجر ہے بابا

    بادل امبر پہ نہ دھرتی پہ شجر ہے بابا زندگی دھوپ میں صحرا کا سفر ہے بابا تم کہاں آ گئے شیشوں کی تمنا لے کر یہ تو اک سنگ فروشوں کا نگر ہے بابا ہم ہیں قید در و دیوار سے آزاد ہمیں جس جگہ رات گزاری وہی گھر ہے بابا من ہو درویش تو پھر تن پہ قبا ہو کہ عبا جوگ بانا نہیں انداز نظر ہے ...

    مزید پڑھیے

    دور تھا ساحل بہت دریا بھی طغیانی میں تھا

    دور تھا ساحل بہت دریا بھی طغیانی میں تھا اک شکستہ ناؤ سا میں تیز رو پانی میں تھا مجھ سے ملنے کوئی آتا بھی تو ملتا کس طرح میں تو گھر میں بند خود اپنی نگہبانی میں تھا آدمیت کے عوض اس نے خریدا ہے لباس آدمی تھا آدمی جب عہد عریانی میں تھا ہے کلب کے رنگ و رامش میں بھی میرے ساتھ ...

    مزید پڑھیے

    سیم و زر چاہے نہ الماس و گہر مانگے ہے

    سیم و زر چاہے نہ الماس و گہر مانگے ہے دل تو درویش ہے الفت کی نظر مانگے ہے جب غزل مجھ سے کوئی مصرعۂ تر مانگے ہے کاوش فکر مرا خون جگر مانگے ہے دل کو ہے عافیت انجمن گل کی طلب زندگی دشت مغیلاں کا سفر مانگے ہے مجھ کو لے جائے جو انجانے دیاروں کی طرف میری آوارہ مزاجی وہ ڈگر مانگے ...

    مزید پڑھیے

    بوند پانی کی ہوں تھوڑی سی ہوا ہے مجھ میں

    بوند پانی کی ہوں تھوڑی سی ہوا ہے مجھ میں اس بضاعت پہ بھی کیا طرفہ انا ہے مجھ میں یہ جو اک حشر شب و روز بپا ہے مجھ میں ہو نہ ہو اور بھی کچھ میرے سوا ہے مجھ میں صفحۂ دہر پہ اک راز کی تحریر ہوں میں ہر کوئی پڑھ نہیں سکتا جو لکھا ہے مجھ میں کبھی شبنم کی لطافت کبھی شعلے کی لپک لمحہ لمحہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2