بادل امبر پہ نہ دھرتی پہ شجر ہے بابا
بادل امبر پہ نہ دھرتی پہ شجر ہے بابا زندگی دھوپ میں صحرا کا سفر ہے بابا تم کہاں آ گئے شیشوں کی تمنا لے کر یہ تو اک سنگ فروشوں کا نگر ہے بابا ہم ہیں قید در و دیوار سے آزاد ہمیں جس جگہ رات گزاری وہی گھر ہے بابا من ہو درویش تو پھر تن پہ قبا ہو کہ عبا جوگ بانا نہیں انداز نظر ہے ...