نصیر پرواز کی غزل

    آتشیں سیلاب میں جب روح ڈالی جائے گی

    آتشیں سیلاب میں جب روح ڈالی جائے گی تشنگی صدیوں کی اشکوں سے بجھا لی جائے گی ٹوٹتی دیوار کا سایہ بدن کی آبرو جانے کب میرے یقیں کی خوش خیالی جائے گی تو نے بھی جھٹلا دیا حرف تفکر کا وجود اب مری آواز کس جھولی میں ڈالی جائے گی اضطراب جاں حصار سنگ باری تنگ کر جسم کی تہذیب زخموں سے ...

    مزید پڑھیے

    زندگی کو نا مرادی سے کوئی شکوہ نہیں

    زندگی کو نا مرادی سے کوئی شکوہ نہیں اب اگر پتھر سے ٹکراؤں تو سر پھٹتا نہیں پی رہی ہے قطرہ قطرہ میرے خوابوں کا لہو میں ہوں دنیا کے لیے میرے لیے دنیا نہیں مٹ چکے ہیں دل سے یوں حالات کے دھندلے نقوش جس طرح گزرا ہوا لمحہ کبھی آتا نہیں بھوک کھیتوں میں کھڑی ہے جیب میں مہنگائی بند شہر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2