آتشیں سیلاب میں جب روح ڈالی جائے گی
آتشیں سیلاب میں جب روح ڈالی جائے گی تشنگی صدیوں کی اشکوں سے بجھا لی جائے گی ٹوٹتی دیوار کا سایہ بدن کی آبرو جانے کب میرے یقیں کی خوش خیالی جائے گی تو نے بھی جھٹلا دیا حرف تفکر کا وجود اب مری آواز کس جھولی میں ڈالی جائے گی اضطراب جاں حصار سنگ باری تنگ کر جسم کی تہذیب زخموں سے ...