نسیم صدیقی کے تمام مواد

5 غزل (Ghazal)

    خوشنوائی تیرے نیرنگ سے ڈر لگتا ہے

    خوشنوائی تیرے نیرنگ سے ڈر لگتا ہے مرحبا سنیے تو آہنگ سے ڈر لگتا ہے ہو کھرا بانٹ تو تلنے سے نہیں کوئی گریز ہاں مگر جنبش پاسنگ سے ڈر لگتا ہے مصلحت کا یہ کفن رکھتا ہے بے داغ ہمیں اہل ایمان ہیں ہم رنگ سے ڈر لگتا ہے ہم جو تلوار اٹھا لیں تو قیامت آ جائے ہاں مگر یہ کہ ہمیں جنگ سے ڈر ...

    مزید پڑھیے

    زخم سنتے ہیں لہو بولتا ہے

    زخم سنتے ہیں لہو بولتا ہے چاک چپ ہے تو رفو بولتا ہے خامشی ایسی کہ دیکھی نہ سنی ہر طرف عالم ہو بولتا ہے خواب سمجھوں کہ حقیقت اس کو اک پرندہ لب جو بولتا ہے میں کہ مر کر بھی ابھی زندہ ہوں جسم پر ہر سر مو بولتا ہے اب تو اک نام عطا کر یا رب کس و ناکس مجھے تو بولتا ہے وہ نمازیں کہ ادا ...

    مزید پڑھیے

    رستہ بھی ہمی لوگ تھے راہی بھی ہمیں تھے

    رستہ بھی ہمی لوگ تھے راہی بھی ہمیں تھے اور اپنی مسافت کی گواہی بھی ہمیں تھے جو جنگ چھڑی تھی اسے جیتے بھی ہمیں لوگ رن چھوڑ کے بھاگے وہ سپاہی بھی ہمیں تھے وہ شہر بسا بھی تھا ہماری ہی بدولت اس شہر تمنا کی تباہی بھی ہمیں تھے روشن بھی ہمی سے رہی تقدیر ہماری اور اپنے مقدر کی سیاہی ...

    مزید پڑھیے

    زندہ رہنے میں ہوں شامل اور نہ مر جانے میں ہوں

    زندہ رہنے میں ہوں شامل اور نہ مر جانے میں ہوں صورت تصویر میں بھی آئنہ خانے میں ہوں یا بہ شکل جنس ہوں حصہ کسی بازار کا یا کسی کردار کا مانند افسانے کا ہوں ایک پل ہوں سکۂ رائج بہ تزک و احتشام دوسرے پل کوڑیوں کے مول بک جانے کو ہوں ہے خسارہ ہی خسارہ ساری ہستی سب وجود میں بھی شامل ...

    مزید پڑھیے

    بس در و دیوار مل جاتے ہیں گھر ملتا نہیں

    بس در و دیوار مل جاتے ہیں گھر ملتا نہیں ایسا دستاروں کا جمگھٹ ہے کہ سر ملتا نہیں خواہ دونوں ساتھ مل کر طے کریں یہ فاصلہ اے ہوا تجھ کو بھی کوئی ہم سفر ملتا نہیں قمقموں کی آنچ نے پگھلا دیے منظر تمام چاند اب کوئی کسی بھی بام پر ملتا نہیں اک تقاضا ہوں جو پورا ہی نہیں ہوتا کبھی سچ ...

    مزید پڑھیے