خوشنوائی تیرے نیرنگ سے ڈر لگتا ہے
خوشنوائی تیرے نیرنگ سے ڈر لگتا ہے
مرحبا سنیے تو آہنگ سے ڈر لگتا ہے
ہو کھرا بانٹ تو تلنے سے نہیں کوئی گریز
ہاں مگر جنبش پاسنگ سے ڈر لگتا ہے
مصلحت کا یہ کفن رکھتا ہے بے داغ ہمیں
اہل ایمان ہیں ہم رنگ سے ڈر لگتا ہے
ہم جو تلوار اٹھا لیں تو قیامت آ جائے
ہاں مگر یہ کہ ہمیں جنگ سے ڈر لگتا ہے
فاصلہ دل کا ہے دنیا سے محض اک فرسنگ
اور ہمیں بس اسی فرسنگ سے ڈر لگتا ہے
ڈر نہیں لگتا کسی خواب سے ہم کو لیکن
اس کی تعبیر کی فرہنگ سے ڈر لگتا ہے
آہنی عزم ہوں پر آنکھ بھی نم ہے میری
بھیگے موسم میں مجھے زنگ سے ڈر لگتا ہے
سر کو دیوار سے محفوظ رکھا ہے پہ نسیمؔ
اپنی مٹھی میں چھپے سنگ سے ڈر لگتا ہے