بس در و دیوار مل جاتے ہیں گھر ملتا نہیں

بس در و دیوار مل جاتے ہیں گھر ملتا نہیں
ایسا دستاروں کا جمگھٹ ہے کہ سر ملتا نہیں


خواہ دونوں ساتھ مل کر طے کریں یہ فاصلہ
اے ہوا تجھ کو بھی کوئی ہم سفر ملتا نہیں


قمقموں کی آنچ نے پگھلا دیے منظر تمام
چاند اب کوئی کسی بھی بام پر ملتا نہیں


اک تقاضا ہوں جو پورا ہی نہیں ہوتا کبھی
سچ یہی ہے اور اس سچ سے مفر ملتا نہیں