آیا ہے خیال بے وفائی
آیا ہے خیال بے وفائی کیوں جی وہی گفتگو پھر آئی او بت نہ سنے گا کوئی میری کیا تیری ہی ہو گئی خدائی روکو روکو زبان روکو دینے نہ لگو کہیں دہائی صحرا میں ہوئی گہر فشانی کام آئی مری برہنہ پائی چاہا لیکن نہ بچ سکے ہم آخر تیغ نگاہ کھائی توڑا کانٹوں نے آبلوں کو برباد ہوئی مری ...