ہوائے تند کے آگے دھواں ٹھہرتا نہیں
ہوائے تند کے آگے دھواں ٹھہرتا نہیں ہمارے سر پہ کبھی آسماں ٹھہرتا نہیں حساب درد کروں بھی تو اس سے کیا حاصل نگاہ شوق میں حرف زیاں ٹھہرتا نہیں نہ راستے کا انہیں علم ہے نہ منزل کا ہزار گرد اڑے کارواں ٹھہرتا نہیں جہاں پہ سکۂ زر کی کھنک سنائی نہ دے فقیہ شہر گھڑی بھر وہاں ٹھہرتا ...