تدبیر شفا کسے بتائے کوئی
تدبیر شفا کسے بتائے کوئی جھوٹے وعدوں پہ کیوں پھنسائے کوئی غواص ہی بیری ہو سمندر سے اگر سچے موتی کہاں سے لائے کوئی
تدبیر شفا کسے بتائے کوئی جھوٹے وعدوں پہ کیوں پھنسائے کوئی غواص ہی بیری ہو سمندر سے اگر سچے موتی کہاں سے لائے کوئی
اے صاحب زر امیر اعلیٰ تو کون آتا ہے خیال لا محالہ تو کون جو کچھ بھی ملے عطائے قدرت سے ملے انعام مجھے دینے والا تو کون
اک شمع سر راہ جلی خیر ہوئی تشویش کی حاجت نہ رہی خیر ہوئی کمزور سہی مگر اجالا تو ہوا توقیر حیات بڑھ گئی خیر ہوئی
اخلاق سے ہو گئی عاری دنیا سر تا بہ قدم ہے کاروباری دنیا مہلک ہے بہت جوہر انساں کا زوال کس جال میں پھنس گئی ہماری دنیا