Nami Ansari

نامی انصاری

نامی انصاری کی غزل

    نظر ملی تھی کسی بے خبر سے پہلے بھی

    نظر ملی تھی کسی بے خبر سے پہلے بھی صدائے تشنہ اٹھی تھی جگر سے پہلے بھی یہ سحر کم ہے کہ شاداب ہو گیا صحرا بہے تھے اشک بہت چشم تر سے پہلے بھی نیا نہیں ہے تقاضائے شیشہ و تیشہ گزر چکا ہوں میں اس درد سر سے پہلے بھی میں خاک چھاننے والا سواد صحرا کا پڑے تھے پاؤں میں چھالے سفر سے پہلے ...

    مزید پڑھیے

    ہر شے وہی نہیں ہے جو پرچھائیوں میں ہے

    ہر شے وہی نہیں ہے جو پرچھائیوں میں ہے اس کے سوا کچھ اور بھی گہرائیوں میں ہے آئینہ جس سے ٹوٹ کے بے آب ہو گیا وہ عکس بے نوا بھی تماشائیوں میں ہے فرصت ملے تو میں بھی کوئی مرثیہ لکھوں اک دشت کربلا مری تنہائیوں میں ہے کس شہر میں تلاش کریں رشتۂ وفا سنتے تو ہیں پرانی شناسائیوں میں ...

    مزید پڑھیے

    مجھے کل ملا جو سر چمن وہ تمام نخل شباب سا

    مجھے کل ملا جو سر چمن وہ تمام نخل شباب سا کوئی بات اس کی شراب سی کوئی حرف اس کا گلاب سا جسے زندگی نہ بھلا سکے جسے موت بھی نہ مٹا سکے وہی میں ہوں غالبؔ خستہ جاں وہی میرؔ خانہ خراب سا وہ تمام گرد فنا ہوئی مرے جسم و جاں پہ جو بار تھی تری اک نظر میں سمٹ گیا مرے سر پہ تھا جو عذاب سا وہی ...

    مزید پڑھیے

    موج گل برگ حنا آب رواں کچھ بھی نہیں

    موج گل برگ حنا آب رواں کچھ بھی نہیں اس جہان رنگ و بو میں جاوداں کچھ بھی نہیں پھر وہی ذوق تعلق پھر وہی کار جنوں سر میں سودا ہے تو آشوب جہاں کچھ بھی نہیں اک سمندر کتنا گہرا میرے پس منظر میں ہے سامنے لیکن زمین و آسماں کچھ بھی نہیں دھوپ کی چادر بھی مل جائے تو کافی ہے بہت کچے پکے ...

    مزید پڑھیے

    خاک اغیار سے یا رب مجھے پیوند نہ کر

    خاک اغیار سے یا رب مجھے پیوند نہ کر مجھ کو ان چاند ستاروں میں نظر بند نہ کر ایک ہی بار چھلک جانے دے پیمانہ مرا لمحہ لمحہ مجھے آزردہ و خورسند نہ کر تجھ کو پہچان لیں یا تجھ کو خدا کہہ بیٹھیں اپنے دیوانوں کو اتنا بھی خرد مند نہ کر شہر دلی تو امانت ہے مرے پرکھوں کی اس کو بے رنگ و صدا ...

    مزید پڑھیے

    یہ بزم شب ہے یہاں علم و آگہی کم ہے

    یہ بزم شب ہے یہاں علم و آگہی کم ہے کئی چراغ جلے پھر بھی روشنی کم ہے اسی لئے تو مری اس سے دوستی کم ہے وہ خود پرست زیادہ ہے آدمی کم ہے یہی بہت ہے کہ پانی کو چھو لیا ہم نے بڑا ہے بحر محبت شناوری کم ہے ہوائے گرم چلی یوں کہ بجھ گئے چہرے گلوں میں اب کے برس بھی شگفتگی کم ہے کہاں کے عشق و ...

    مزید پڑھیے

    اک نگاہ دلبری میری طرف

    اک نگاہ دلبری میری طرف زندگی آ جائے گی میری طرف سیم و زر کا اک شجر اس کے لیے شاخ علم و آگہی میری طرف میرے اندر بھی اندھیرا ہے بہت روشنی اے روشنی میری طرف سیر گل سیر چمن سب اس کے نام شہر بھر کی ناخوشی میری طرف دست مجنوں کے ہرن کالے ہوئے برف سی گرتی ہوئی میری طرف اس کے دست ناز ...

    مزید پڑھیے

    مرے خیال سے آگے ترا نشانہ پڑا

    مرے خیال سے آگے ترا نشانہ پڑا سمند شوق پہ اک اور تازیانہ پڑا ابھی تو عشق و نظر کے ہزار پہلو تھے گلے ہمارے کہاں سے غم زمانہ پڑا پرائے نور سے میں کسب فیض کیا کرتا اثر پڑا ہے کبھی کچھ تو غائبانہ پڑا مجھے بھی قرض چکانا تھا اس کا اب کے برس غلط نہیں جو مرا دشت میں ٹھکانا پڑا کسی کے ...

    مزید پڑھیے

    خود آزما کے بھی دعوے اجل کے دیکھتے ہیں

    خود آزما کے بھی دعوے اجل کے دیکھتے ہیں دیار شوق میں اک بار چل کے دیکھتے ہیں پگھلتی ہے کہ نہیں برف نا شناسائی کسی کی گرم نگاہی سے جل کے دیکھتے ہیں یہ دشت ہو سر گلشن کہاں سے آ نکلا یہ معجزہ ہے تو گھر سے نکل کے دیکھتے ہیں جنہیں ملی ہی نہیں چشم و دل کی بینائی تماشے وہ بھی خمار ازل کے ...

    مزید پڑھیے

    صحبت شب کا طلب گار نہ ہوگا کوئی

    صحبت شب کا طلب گار نہ ہوگا کوئی خوف اتنا ہے کہ بیدار نہ ہوگا کوئی دھوپ ہر سمت سے نکلی تو کہاں جاؤ گے دشت میں سایۂ دیوار نہ ہوگا کوئی حرف احساس بھی جل جائے گا ہونٹوں کی طرح مدعا قابل اظہار نہ ہوگا کوئی میں کہ پروردۂ صحرا ہوں بکوں گا کیسے دیکھ لینا کہ خریدار نہ ہوگا کوئی کچھ تو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2