ڈر
کیسے نکلے گا جیتے جی دل سے ڈر کا کا صاحب کب خوف کی وحشی گلیوں میں بھٹکی ہوئی ساعت لوٹے گی؟ کب اندیشوں کے سانپ مرے پیڑوں سے لپٹنا چھوڑیں گے؟ سہمے ہوئے شبدوں کو اپنے سینے سے لگائے بیٹھی ہوں کیسے بتلاؤں کیوں مجھ کو دن کے زہریلے ہاتھوں سے! شاموں کے سرخ آسیبوں سے، راتوں کی بے دل آنکھوں ...