وقت کا سلسلہ نہیں رکتا
وقت کا سلسلہ نہیں رکتا لاکھ روکو ذرا نہیں رکتا یہ زمیں ہے خداؤں کا مدفن آدم کج ادا نہیں رکتا عشق وہ چار سو سفر ہے جہاں کوئی بھی راستہ نہیں رکتا رفتگاں آئینہ دکھاتا ہے کچھ بھی ہو ارتقا نہیں رکتا
وقت کا سلسلہ نہیں رکتا لاکھ روکو ذرا نہیں رکتا یہ زمیں ہے خداؤں کا مدفن آدم کج ادا نہیں رکتا عشق وہ چار سو سفر ہے جہاں کوئی بھی راستہ نہیں رکتا رفتگاں آئینہ دکھاتا ہے کچھ بھی ہو ارتقا نہیں رکتا
بکھرا ہے کئی بار سمیٹا ہے کئی بار یہ دل ترے اطراف کو نکلا ہے کئی بار جس چاند کے دیدار کی حسرت میں ہے دنیا وہ شام ڈھلے گھر مرے اترا ہے کئی بار سن کر تجھے مدہوش زمانہ ہے مجھے دیکھ جس نے تری آواز کو دیکھا ہے کئی بار افسوس کہ ہے عشق یگانہ سے بہت دور یارو تمہیں ہر روز جو ہوتا ہے کئی ...
فیصلہ ہو گیا ہے رات گئے لوٹنے وہ گیا ہے رات گئے وہ سحر کا سفیر تھا شاید روشنی بو گیا ہے رات گئے عشق تو بھی ذرا ٹکا لے کمر دل بھی اب سو گیا ہے رات گئے وقت کانٹے نئے بچھائے گا راستے دھو گیا ہے رات گئے چین پڑتا نہیں نعیمؔ تجھے جانے کیا کھو گیا ہے رات گئے
چشم و دل صاحب گفتار ہوئے جاتے ہیں راستے عقل کو دشوار ہوئے جاتے ہیں ہجر دیرینہ سے اب خوش تھے بہت میں اور وہ اب مگر فاصلے بیزار ہوئے جاتے ہیں وہ نگاہیں ہیں مغنی کی تھرکتی پوریں ساز سوئے ہوئے بیدار ہوئے جاتے ہیں شعر گوئی ترا منصب تو نہیں طفل سخن ہاں مگر ہجر میں دو چار ہوئے جاتے ...
شعور ذات کے سانچے میں ڈھلنا چاہتا ہوں میں گرنے سے بہت پہلے سنبھلنا چاہتا ہوں لباس آدم خاکی بدلنا چاہتا ہوں میں اپنے جسم سے باہر نکلنا چاہتا ہوں تمہاری یاد کی بارش میں جلنا چاہتا ہوں میں سنگ و خشت ہوں لیکن پگھلنا چاہتا ہوں مرے اندر خزانے ہیں اگلنا چاہتا ہوں تہہ پاتال کو چھو کر ...
کسی کے فرض کرنے سے اگر فطرت بدل سکتی تو پھر شاید محبت جیت سکتی تھی
جن بچوں کو اپنا سارا جیون دے کر پالا پوسا وہ بچے جب دور گئے ہوں ان کی راہ تکتی رہتی ہے ان کی یاد میں کھو جاتی ہے چپکے چپکے روتی ہے روتے روتے سو جاتی ہے ماں جب بوڑھی ہو جاتی ہے
ایک عجیب خواہش ہے اس زمیں کے کونے میں صرف مہ جبینوں کی سب کی سب حسینوں کی اپنی ایک بستی ہو زندگی جہاں ہر پل کھلکھلا کے ہنستی ہو رنگ و نور کی بارش ہر گھڑی برستی ہو سب غزال نینوں میں شوخ سی شرارت ہو ان کی جنبش لب سے زندگی عبارت ہو خوشیوں کا جھمیلا ہو پلکوں پہ ستارے ہوں روشنی کا ریلا ...
یہ ہماری قسمت کے جتنے بھی ستارے ہیں قدرت الٰہی نے بے مراد رستوں پر باندھ کر اتارے ہیں جن کی اپنی منزل ہی بے نشان رستے ہوں روشنی جو غیروں سے مستعار لیتے ہوں کیسے میں یقیں کر لوں میری منزلوں کے وہ معتبر اشارے ہیں یہ ہماری قسمت کے جتنے بھی ستارے ہیں صرف استعارے ہیں
حسن منظر میں کہاں ہے یہ ہمارے من کی آنکھوں میں کہیں ہے من کی آنکھیں کھل سکیں جو تو ہر اک منظر حسیں ہے حسن منظر میں نہیں ہے