Naeem Waqif

نعیم واقف

  • 1980

نعیم واقف کی غزل

    ہم سے یہ قتل کے منظر نہیں دیکھے جاتے

    ہم سے یہ قتل کے منظر نہیں دیکھے جاتے شاہراہوں پہ کٹے سر نہیں دیکھے جاتے جب کفن باندھ کے نکلے ہو شہادت کے لئے پھر پلٹ کر تو کبھی گھر نہیں دیکھے جاتے فکر کا کاش دریچہ ہی کوئی کھل جائے ذہن انسانوں کے بنجر نہیں دیکھے جاتے ہم نے ہنستے ہوئے پھولوں میں گزاری ہے حیات ہم سے بربادی کے ...

    مزید پڑھیے

    ہوا جب نا مناسب ہو تو پتے ٹوٹ جاتے ہیں

    ہوا جب نا مناسب ہو تو پتے ٹوٹ جاتے ہیں جہاں مطلب پرستی ہو وہ رشتے ٹوٹ جاتے ہیں گلوں کی پرورش کے واسطے مالی ضروری ہے نہ ہو ماں باپ کا سایہ تو بچے ٹوٹ جاتے ہیں اگر ہو جائے بیٹا نا خلف تو بوڑھی آنکھوں کے سجے ہوتے ہیں جتنے بھی وہ سپنے ٹوٹ جاتے ہیں پرندے ہیں اگر خاموش بزدل مت سمجھ ...

    مزید پڑھیے

    حیوانیت کا زہر دلوں میں اتر گیا

    حیوانیت کا زہر دلوں میں اتر گیا بستی سے اپنی کون سا موسم گزر گیا اونچے مکان والے جو تھے صاف بچ گئے الزام قتل سارا غریبوں کے سر گیا دیدار ہو رہا تھا مجھے ان کا خواب میں آنکھیں کھلیں تو خوش نما منظر بکھر گیا حیرت زدہ ہیں لوگ مرا عزم دیکھ کر میں پیچ و خم کی راہ پہ چل کر سنور ...

    مزید پڑھیے

    یہ فکر و فن کے فتنے لوگ اب اکثر اٹھاتے ہیں

    یہ فکر و فن کے فتنے لوگ اب اکثر اٹھاتے ہیں اجالے میں تو سبحہ رات میں ساغر اٹھاتے ہیں نہیں ہے طاقت پرواز لیکن حوصلہ تو ہے نگاہیں آسماں پہ رکھ کے بال و پر اٹھاتے ہیں یہ مانا ہم نے صبر و ضبط کے عادی ہیں ہم لیکن ستم حد سے گزر جائے تو پھر خنجر اٹھاتے ہیں کبھی ٹھوکر نہیں کھاتے وہ اس ...

    مزید پڑھیے