یہ فکر و فن کے فتنے لوگ اب اکثر اٹھاتے ہیں
یہ فکر و فن کے فتنے لوگ اب اکثر اٹھاتے ہیں
اجالے میں تو سبحہ رات میں ساغر اٹھاتے ہیں
نہیں ہے طاقت پرواز لیکن حوصلہ تو ہے
نگاہیں آسماں پہ رکھ کے بال و پر اٹھاتے ہیں
یہ مانا ہم نے صبر و ضبط کے عادی ہیں ہم لیکن
ستم حد سے گزر جائے تو پھر خنجر اٹھاتے ہیں
کبھی ٹھوکر نہیں کھاتے وہ اس دنیائے فانی میں
جو اپنا ہر قدم مولا کی مرضی پر اٹھاتے ہیں
ہوا ہے قتل مفلس کے دل ارماں کا دنیا میں
تمنائیں تھی پھولوں کی مگر پتھر اٹھاتے ہیں
زمانے کا چلن ہے اس طرح بدلا ہوا واقفؔ
جھکا کے سر جو چلتے تھے وہی اب سر اٹھاتے ہیں