ہم سے یہ قتل کے منظر نہیں دیکھے جاتے
ہم سے یہ قتل کے منظر نہیں دیکھے جاتے
شاہراہوں پہ کٹے سر نہیں دیکھے جاتے
جب کفن باندھ کے نکلے ہو شہادت کے لئے
پھر پلٹ کر تو کبھی گھر نہیں دیکھے جاتے
فکر کا کاش دریچہ ہی کوئی کھل جائے
ذہن انسانوں کے بنجر نہیں دیکھے جاتے
ہم نے ہنستے ہوئے پھولوں میں گزاری ہے حیات
ہم سے بربادی کے منظر نہیں دیکھے جاتے
دیکھ لینے سے بھی ہوتی ہے تسلی دل کو
آئنے ہاتھ سے چھو کر نہیں دیکھے جاتے
غم کی راہوں سے بھی ہنستے ہوئے گزرو واقفؔ
راہ میں خار یا پتھر نہیں دیکھے جاتے