حیوانیت کا زہر دلوں میں اتر گیا

حیوانیت کا زہر دلوں میں اتر گیا
بستی سے اپنی کون سا موسم گزر گیا


اونچے مکان والے جو تھے صاف بچ گئے
الزام قتل سارا غریبوں کے سر گیا


دیدار ہو رہا تھا مجھے ان کا خواب میں
آنکھیں کھلیں تو خوش نما منظر بکھر گیا


حیرت زدہ ہیں لوگ مرا عزم دیکھ کر
میں پیچ و خم کی راہ پہ چل کر سنور گیا


ذاتیں تمام فرقہ پرستی میں بٹ گئیں
واقفؔ تلاش کرتا ہے انساں کدھر گیا