Nadeem Bhabha

ندیم بھابھہ

ندیم بھابھہ کی غزل

    وقت کی طرح ترے ہاتھ سے نکلے ہوئے ہیں

    وقت کی طرح ترے ہاتھ سے نکلے ہوئے ہیں ہم ستارے ہیں مگر رات سے نکلے ہوئے ہیں خامشی ہم پہ گری آخری مٹی کی طرح ایسے چپ ہیں کہ ہر اک بات سے نکلے ہوئے ہیں ہم کسی زعم میں ناراض ہوئے ہیں تجھ سے ہم کسی بات پہ اوقات سے نکلے ہوئے ہیں یہ مرا غم ہے مرے دوست مگر تو یہ سمجھ اشک تو شدت جذبات سے ...

    مزید پڑھیے

    جیسا ہوں جس حال میں ہوں اچھا ہوں میں

    جیسا ہوں جس حال میں ہوں اچھا ہوں میں تم نے زندہ سمجھا تو زندہ ہوں میں اک آواز کے آتے ہی مر جاؤں گا اک آواز کے سننے کو زندہ ہوں میں کھلے ہوئے دروازے دستک بھول چکے اندر آ جاؤ پہچان چکا ہوں میں اور کوئی پہچان مری بنتی ہی نہیں جانتے ہیں سب لوگ کہ بس تیرا ہوں میں جانے کس کو راضی کرنا ...

    مزید پڑھیے

    رابطہ مجھ سے مرا جوڑ دیا کرتا تھا

    رابطہ مجھ سے مرا جوڑ دیا کرتا تھا وہ جو اک شخص مجھے چھوڑ دیا کرتا تھا مجھے دریا، کبھی صحرا کے حوالے کر کے وہ کہانی کو نیا موڑ دیا کرتا تھا اس سے آگے تو محبت سے گلہ ہے مجھ کو تو تو بس ہات مرا چھوڑ دیا کرتا تھا بات پیڑوں کی نہیں، غم ہے پرندوں کا ندیمؔ گھونسلے جن کے کوئی توڑ دیا ...

    مزید پڑھیے

    میں کھجوروں بھرے صحراؤں میں دیکھا گیا ہوں

    میں کھجوروں بھرے صحراؤں میں دیکھا گیا ہوں تخت کے بعد ترے پاؤں میں دیکھا گیا ہوں دفن ہوتی ہوئی جھیلوں میں ٹھکانے ہیں مرے خشک ہوتے ہوئے دریاؤں میں دیکھا گیا ہوں مسجدوں اور مزاروں میں مرے چرچے ہیں مندروں اور کلیساؤں میں دیکھا گیا ہوں لمحہ بھر کو مرے سر پر کوئی بادل آیا کہنے ...

    مزید پڑھیے

    روح حاضر ہے مرے یار کوئی مستی ہو

    روح حاضر ہے مرے یار کوئی مستی ہو حلقۂ رقص ہے تیار کوئی مستی ہو مجھ کو مٹی کے پیالے میں پلا تازہ شراب جسم ہونے لگا بے کار کوئی مستی ہو چار سمتوں نے ترے ہجر کے گھنگھرو باندھے اور ہم لوگ بھی ہیں چار کوئی مستی ہو میں من و تو کے صحیفوں کی تلاوت کروں گا بے وضو ہوں مری سرکار کوئی مستی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3