Muzammil Sheikhpurvi

مزمل شیخ پوروی

مزمل شیخ پوروی کی غزل

    کچھ نہیں ہوگا اب بیاں جاناں

    کچھ نہیں ہوگا اب بیاں جاناں ختم ہوتی ہے داستاں جاناں کیسے بولوں کہ تیرے جانے سے لٹ گیا میرا کارواں جاناں اب ملوں گا نہیں کبھی تم کو میں چلا سوئے آسماں جاناں یہ جو تم دور ہو گئے مجھ سے آ گیا کون درمیاں جاناں بن تمہارے یہ حال ہے میرا آب بن جیسے مچھلیاں جاناں تم نے بولا تھا یہ ...

    مزید پڑھیے

    مجھے ہر زخم وہ اچھے لگے ہیں

    مجھے ہر زخم وہ اچھے لگے ہیں تری جانب سے جو مجھ پہ لگے ہیں وہ میرے گھر بھلا آئے بھی کیسے مرے دروازے پہ تالے لگے ہیں کسی نے دل ہمارا توڑ ڈالا تبھی تو ہم غزل کہنے لگے ہیں گنوں میں ہجر کی راتوں کو کیسے یہ کچھ دن سال کے جیسے لگے ہیں نئے کچھ زخم دے دو پھر سے مجھ کو پرانے زخم اب بھرنے ...

    مزید پڑھیے

    زمین روند چکے آسمان باقی ہے

    زمین روند چکے آسمان باقی ہے ابھی کہیں نہ کہیں یہ جہان باقی ہے یہ دور پیسے کا ہے کچھ پتہ نہیں چلتا کہ کون بک گیا کس کی زبان باقی ہے کریں وہ لاکھ جتن پھر بھی کچھ نہیں ہوگا ابھی زمین پہ اس کا مکان باقی ہے ہمیں مٹا دو مگر حق تو چھپ نہیں سکتا گلا کٹا ہے ابھی تو زبان باقی ہے یہ کہہ کے ...

    مزید پڑھیے