زمین روند چکے آسمان باقی ہے
زمین روند چکے آسمان باقی ہے
ابھی کہیں نہ کہیں یہ جہان باقی ہے
یہ دور پیسے کا ہے کچھ پتہ نہیں چلتا
کہ کون بک گیا کس کی زبان باقی ہے
کریں وہ لاکھ جتن پھر بھی کچھ نہیں ہوگا
ابھی زمین پہ اس کا مکان باقی ہے
ہمیں مٹا دو مگر حق تو چھپ نہیں سکتا
گلا کٹا ہے ابھی تو زبان باقی ہے
یہ کہہ کے چھوڑ دیا کیوں قلم مزملؔ نے
ابھی تو اور بھی اک امتحان باقی ہے