مجھے ہر زخم وہ اچھے لگے ہیں
مجھے ہر زخم وہ اچھے لگے ہیں
تری جانب سے جو مجھ پہ لگے ہیں
وہ میرے گھر بھلا آئے بھی کیسے
مرے دروازے پہ تالے لگے ہیں
کسی نے دل ہمارا توڑ ڈالا
تبھی تو ہم غزل کہنے لگے ہیں
گنوں میں ہجر کی راتوں کو کیسے
یہ کچھ دن سال کے جیسے لگے ہیں
نئے کچھ زخم دے دو پھر سے مجھ کو
پرانے زخم اب بھرنے لگے ہیں
اسے کیسے میں پھر سے یاد کر لوں
بھلانے میں جسے عرصے لگے ہیں