بہت پہنچے تو ان کے کاکل و رخسار تک پہنچے
بہت پہنچے تو ان کے کاکل و رخسار تک پہنچے مگر عاشق نہ اب تک عشق کے معیار تک پہنچے دبائیں دھڑکنیں آنکھوں کو جھٹلایا گیا برسوں بڑی مشکل سے وہ انکار سے اقرار تک پہنچے ابھی تو روشنی الجھی ہے تاریکی کے طوفاں سے نہ جانے کب تلک اپنے در و دیوار تک پہنچے چھڑاؤ گر چھڑا سکتے ہو دامان وفا ...