مشتاق نقوی کی غزل

    بہت پہنچے تو ان کے کاکل و رخسار تک پہنچے

    بہت پہنچے تو ان کے کاکل و رخسار تک پہنچے مگر عاشق نہ اب تک عشق کے معیار تک پہنچے دبائیں دھڑکنیں آنکھوں کو جھٹلایا گیا برسوں بڑی مشکل سے وہ انکار سے اقرار تک پہنچے ابھی تو روشنی الجھی ہے تاریکی کے طوفاں سے نہ جانے کب تلک اپنے در و دیوار تک پہنچے چھڑاؤ گر چھڑا سکتے ہو دامان وفا ...

    مزید پڑھیے

    زباں پہ خود بخود عرض محبت آئی جاتی ہے

    زباں پہ خود بخود عرض محبت آئی جاتی ہے کھلے پڑتے ہیں ارماں زندگی شرمائی جاتی ہے بلاوے آ رہے ہیں منزلوں کے شام سے لیکن تمناؤں کو ان کی گود میں نیند آئی جاتی ہے وہ آئے ہیں تسلی کے لئے لیکن یہ عالم ہے نگاہیں نم ہیں لو آواز کی تھرائی جاتی ہے دماغ و دل کی ساری کشمکش بے کار و لا ...

    مزید پڑھیے

    غموں نے اس طرح گھیرا کبھی نہیں ہوگا

    غموں نے اس طرح گھیرا کبھی نہیں ہوگا یہ لگ رہا تھا سویرا کبھی نہیں ہوگا انہیں کا ذکر ہے دن رات ان کی باتیں ہیں تمہارا دل ہے یہ میرا کبھی نہیں ہوگا تمام دولت کون و مکاں ملے تو کیا تو جس کا ہو گیا، تیرا کبھی نہیں ہوگا ہماری سن لو ہمیں دیکھ لو کہ پھر شاید ادھر فقیر کا پھیرا کبھی ...

    مزید پڑھیے

    یہ کیا وسوسے ہم سفر ہو گئے ہیں

    یہ کیا وسوسے ہم سفر ہو گئے ہیں سبھی راستے پر خطر ہو گئے ہیں پکارا نہیں تم کو غیرت نے ورنہ کئی بار آکر ادھر ہو گئے ہیں نہ سمجھو ہمیں کچھ شکایت نہیں ہے کہ خاموش کچھ سوچ کر ہو گئے ہیں کسے ہو خبر درد پنہاں کی اے دل جنہیں تھی خبر بے خبر ہو گئے ہیں ہم اپنی تباہی پہ بس مسکرائے مگر دامن ...

    مزید پڑھیے

    کس قدر پیاس ملی آپ کے میخانے سے

    کس قدر پیاس ملی آپ کے میخانے سے عمر بھر آنکھوں میں چھلکا کئے پیمانے سے کیسا جادو تھا ان آنکھوں میں جنہیں دیکھ کے ہم مدتوں اپنوں میں پھرتے رہے بیگانے سے میری تخئیل نے دنیا کو دئے پیراہن کیا حقیقت ہے یہ پوچھو مرے افسانے سے ٹوٹ جانے پہ بھی رشتوں کا بھرم باقی ہے ان کا گھر دور نہیں ...

    مزید پڑھیے

    سلسلہ جب تری باتوں کا جواں ہوتا ہے

    سلسلہ جب تری باتوں کا جواں ہوتا ہے تب ہر اک جام بکف جانے کہاں ہوتا ہے اف رے وہ آہ جو سینے سے نکل بھی نہ سکے ہائے وہ درد جو آنکھوں میں نہاں ہوتا ہے خود فریبی ہے تھکن ہے کہ شکستہ پائی ہر قدم پر مجھے منزل کا گماں ہوتا ہے ان کی نظروں کا بڑھاوا ہے وگرنہ ہم سے حال دل کب کسی صورت میں ...

    مزید پڑھیے

    گلشن بھی سجائے ہیں اس نے یہ جھلکا ہے شمشیر میں بھی

    گلشن بھی سجائے ہیں اس نے یہ جھلکا ہے شمشیر میں بھی انساں کے لہو کا کھیل ہوا تخریب میں بھی تعمیر میں بھی جو فرق ہے وہ ہے ہاتھوں کا جو شوق عمل میں بڑھتے ہیں یوں ایک ہی نغمہ ایک تڑپ ہے ساز میں بھی شمشیر میں بھی چن چن کے خرد نے نوچا ہے پھولوں کی قباؤں کو لیکن کچھ دامن سالم رہ ہی گئے اس ...

    مزید پڑھیے

    سمٹے تو ایسے شمس و قمر میں سمٹ گئے

    سمٹے تو ایسے شمس و قمر میں سمٹ گئے بکھرے تو ایسے خاک کے ذروں میں بٹ گئے منزل کہاں سفر ہی سفر ہو گئی حیات اتنا چلے کہ پاؤں سے رستے لپٹ گئے یہ وقت کا کرم ہے کہ رکتے نہیں ہیں دن کٹنا نہ چاہئے تھا جنہیں وہ بھی کٹ گئے اب دیکھنا ہے کون سنوارے گا تیرے پھول اک ہم ہی تیری راہ کا کانٹا تھے ...

    مزید پڑھیے

    مائل جو آج کل نگہ نیم باز ہے

    مائل جو آج کل نگہ نیم باز ہے وہ دل ٹٹولتے ہیں کہ کتنا گداز ہے تاریکیوں میں وقت کی رفتار کھو گئی یہ شام غم ہے یا تری زلف دراز ہے توڑے ہزار جام شرابوں میں ڈوب کر ملتا نہیں جو ان کی نگاہوں میں راز ہے اب وہ ستم کریں کہ کرم ہم کو کیا غرض دل ان کو دے کے عشق بہت بے نیاز ہے تم ننگ جان کر ...

    مزید پڑھیے

    ہم سفر راتوں کے سائے ہو گئے

    ہم سفر راتوں کے سائے ہو گئے چاند تارے راستوں میں سو گئے قصۂ دل میں وفا کی بات پر اس نے یوں دیکھا کہ ہم چپ ہو گئے تم تو کوئی اجنبی ہو اجنبی جو ہمارے تھے وہ تم کیا ہو گئے منزلیں آواز دے کر تھک گئیں قافلے گرد سفر میں کھو گئے آج تک آنکھوں میں اک تصویر ہے گو اسے دیکھے زمانے ہو گئے

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3