مشتاق نقوی کی غزل

    کرم میں ہے نہ ستم میں نہ التفات میں ہے

    کرم میں ہے نہ ستم میں نہ التفات میں ہے جو بات تیری نگاہوں کی احتیاط میں ہے کچھ اس طرح سے چلے جا رہے ہیں کانٹوں پر کہ جیسے ہاتھ ہمارا تمہارے ہاتھ میں ہے دیئے جلے ہیں سجی جا رہی ہے کل کی دلہن عجیب حسن غم زندگی کی رات میں ہے کھڑی ہے سیل حوادث کے درمیاں اب تک بڑا ثبات مری عمر بے ثبات ...

    مزید پڑھیے

    لمبی تھی عمر محبت کی برباد ہوئے ہوتے ہوتے

    لمبی تھی عمر محبت کی برباد ہوئے ہوتے ہوتے کچھ رات کٹی پیتے پیتے کچھ رات کٹی روتے روتے ان پیاس بھری آنکھوں کے سوا اس جگ میں اپنا تھا ہی کیا سب کو دیکھا چلتے چلتے سب کو کھویا کھوتے کھوتے جب یاد کوئی آ جاتی ہے یوں دل کی کلی کھل جاتی ہے جیسے خوابوں کی دنیا میں بچہ ہنس دے سوتے ...

    مزید پڑھیے

    جو خم پر خم چھلکاتے ہیں ہونٹوں کی تھکن کیا سمجھیں گے

    جو خم پر خم چھلکاتے ہیں ہونٹوں کی تھکن کیا سمجھیں گے پھولوں میں گزرتی ہے جن کی کانٹوں کی چبھن کیا سمجھیں گے پتھر کے پجاری آنکھوں کی گہرائی کو پانا کیا جانیں قسمت پہ یقیں رکھنے والے ماتھے کی شکن کیا سمجھیں گے ہم دیوانے ہیں دیوانے بے کار سبق دیتے ہو ہمیں ہم موت کے معنی کیا جانیں ...

    مزید پڑھیے

    رہے ہے آج کل کچھ اس طرح چرخ کہن بگڑا

    رہے ہے آج کل کچھ اس طرح چرخ کہن بگڑا مرے ہی آشیاں سے جیسے یہ نظم چمن بگڑا کہاں گزری ہے ساری رات کچھ ہم بھی سنیں آخر یہ رخ یہ چاندنی چھٹکی یہ تار پیرہن بگڑا برس کر رہ گئیں کلیاں چمن کے فرش رنگیں پر پکڑ کر شاخ جب کل شام وہ غنچہ دہن بگڑا تری نظروں ہی تک تھا سب سلیقہ اہل محفل کا ترے ...

    مزید پڑھیے

    دلوں کا حال وہ بے اعتبار کیا جانے

    دلوں کا حال وہ بے اعتبار کیا جانے جسے نہ پیار ملا ہو وہ پیار کیا جانے ادا سے آئی چمن میں ادا سے لوٹ گئی گلوں پہ بیت گئی کیا بہار کیا جانے نہ کوئی خواب ہے آنکھوں میں اور نہ بے خوابی کہاں رکی ہے شب انتظار کیا جانے اسے بھلائے ہوئے مدتیں ہوئیں لیکن یہ کون چھوتا ہے دل بار بار کیا ...

    مزید پڑھیے

    ساز بنے ان اشکوں سے جو بہتے ہیں تنہائی میں

    ساز بنے ان اشکوں سے جو بہتے ہیں تنہائی میں صدیوں کی محرومی رو رو گاتی ہے شہنائی میں جتنے ہلکے لوگ تھے وہ سب تیر گئے اس پار ہوئے ایک ہمیں تھے ڈوب گئے جو اپنی ہی گہرائی میں اپنا بدن سوتا رہتا ہے بستر پر لیکن اکثر رات گئے ٹہلا کرتا ہے کون مری انگنائی میں دل ہے کس کا جاں ہے کسی کی ...

    مزید پڑھیے

    دل سی ویرانی میں سایہ کوئی مہمان تو ہے

    دل سی ویرانی میں سایہ کوئی مہمان تو ہے اپنے خوابوں سے ملاقات کا امکان تو ہے کچھ نہ کچھ نذر تو کرنا ہے ترے جلوے کو اور دولت نہ سہی کوئی دل و جان تو ہے کیا ملے گا ہمیں اب اس کی پشیمانی سے بے وفائی پہ کوئی اپنی پشیمان تو ہے یوں نہ ہو خود سے نبھانا تمہیں مشکل ہو جائے ہم کو نظروں سے ...

    مزید پڑھیے

    مدتوں یہ سوچ کر تنہائی میں تڑپا کئے

    مدتوں یہ سوچ کر تنہائی میں تڑپا کئے ہو گئے ہم سے جدا وہ اور ہم دیکھا کئے ایک لمحہ میں جو کر بیٹھے ہیں دیوانے ترے لوگ صدیوں اس کی لا محدودیت سمجھا کئے کامیابی اپنے حصے میں کبھی تھی ہی نہیں ہم نے ناکامی سے اپنے راستے پیدا کئے بے وفائی اس کی میرے ساتھ مت شامل کرو جرم ہم نے عشق میں ...

    مزید پڑھیے

    یہ اجالا ہر اک شے کو چمکا گیا

    یہ اجالا ہر اک شے کو چمکا گیا آئنہ دل کا کچھ اور دھندلا گیا آج مغموم ہے وہ سر آئینہ زلف الجھی تو میرا خیال آ گیا اپنی بربادیوں کا مجھے غم نہیں غم یہ ہے کس طرح تجھ سے دیکھا گیا اتنی فرصت کہاں تھی کہ ہم سوچتے عشق میں کیا ہوا، کیا ملا، کیا گیا لٹ گیا جہد ہستی میں احساس بھی زندگی کے ...

    مزید پڑھیے

    زندگی کا نشان ہیں ہم لوگ

    زندگی کا نشان ہیں ہم لوگ اے زمین آسمان ہیں ہم لوگ روز جیتے ہیں روز مرتے ہیں کس قدر سخت جان ہیں ہم لوگ زندگی مسکرا تو دے اک بار ایک شب میہمان ہیں ہم لوگ صورتیں دھول ہو چکی ہیں مگر حسن کے پاسبان ہیں ہم لوگ خود سے ملتے ہیں دشمنوں کی طرح غیر پر مہربان ہیں ہم لوگ اک یہی درد تو ملا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3