Mushir Jhanjhanvi

مشیر جھنجھانوی

مشیر جھنجھانوی کی غزل

    تری برق پاش نگاہ سے ترے حشر خیز خرام سے

    تری برق پاش نگاہ سے ترے حشر خیز خرام سے بہ سکون قلب گزر گیا میں ہر ایک ایسے مقام سے مری زندگی کے یہ مرحلے ہمہ اتقا ہمہ بندگی مجھے کیف ان کی نظر سے ہے کوئی واسطہ نہیں جام سے وہ لجا گئے وہ جھجھک گئے وہ ٹھہر گئے کسی سوچ میں سر رہ کسی نے جو دفعتاً انہیں دی صدا مرے نام سے میں ہوں شمع ...

    مزید پڑھیے

    محبت میں سحر اے دل برائے نام آتی ہے

    محبت میں سحر اے دل برائے نام آتی ہے یہ وہ منزل ہے جس منزل میں اکثر شام آتی ہے سفینہ جس جگہ ڈوبا تھا میرا بحر الفت میں وہاں ہر موج اب تک لرزہ بر اندام آتی ہے نہ جانے کیوں دل غم آشنا کو دیکھ لیتا ہوں جہاں کانوں میں آواز شکست جام آتی ہے دل ناداں یہی رنگیں ادائیں لوٹ لیتی ہیں شفق کی ...

    مزید پڑھیے

    نظروں کی ضد سے یوں تو میں غافل نہیں رہا

    نظروں کی ضد سے یوں تو میں غافل نہیں رہا پہلو میں اے مشیرؔ مگر دل نہیں رہا اے دل تصورات کا حاصل نہیں رہا کوئی مری نظر کے مقابل نہیں رہا موجوں پہ اعتماد نہ کیوں کر کرے کوئی ساحل تو اعتبار کے قابل نہیں رہا آداب بزم ناز پہ اے دل نظر تو ہے مانا کہ درد ضبط کے قابل نہیں رہا وہ چشم عشوہ ...

    مزید پڑھیے

    تاب نظر سے ان کو پریشاں کیے ہوئے

    تاب نظر سے ان کو پریشاں کیے ہوئے آئینۂ جمال کو حیراں کیے ہوئے جلتے رہے چراغ کی صورت تمام عمر لیکن فضائے غم کو فروزاں کیے ہوئے تیری گلی میں جشن بہاراں ہے بے خبر آئے ہیں لوگ دل کو گلستاں کیے ہوئے ساقی بس ایک جام سکوں چاہئے مجھے حالات زندگی ہیں پریشاں کیے ہوئے ہم بھی شریک جشن ...

    مزید پڑھیے

    نصیب عشق مسرت کبھی نہیں ہوتی

    نصیب عشق مسرت کبھی نہیں ہوتی یہ بزم وہ ہے جہاں روشنی نہیں ہوتی جبین عشق کے سجدے قبول ہوتے ہیں مزاج حسن میں جب برہمی نہیں ہوتی سمجھ چکے ہیں اسیری کو ہم پیام اجل کہ زندگی قفس زندگی نہیں ہوتی مرے بغیر انہیں کون جان سکتا ہے وہ یوں گزرتے ہیں آواز بھی نہیں ہوتی ترا ستم بھی تو ہے ایک ...

    مزید پڑھیے

    عشق کی شعلہ مزاجی خود ہی برساتی ہے آگ

    عشق کی شعلہ مزاجی خود ہی برساتی ہے آگ بانس کے جنگل میں اپنے آپ لگ جاتی ہے آگ جان لینے کے طریقے کس قدر دلچسپ ہیں زہر برساتی ہے شبنم پھول برساتی ہے آگ حرف جب آتا ہے ناموس و وقار عشق پر شدت احساس سے رگ رگ میں لہراتی ہے آگ نا موافق دور میں اپنے بھی ہو جاتے ہیں غیر خشک موسم ہو تو ...

    مزید پڑھیے

    ستم میں بھی شان کرم دیکھتے ہیں

    ستم میں بھی شان کرم دیکھتے ہیں ہمیں جانتے ہیں جو ہم دیکھتے ہیں جہاں تک تعلق ہے عیب و خطا کا جو اہل نظر ہیں وہ کم دیکھتے ہیں ترا انتظار اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ہر آنے والے کو ہم دیکھتے ہیں نظر سوئے کعبہ ہے دل بت کدے میں ہم انداز اہل حرم دیکھتے ہیں نگاہیں یوں ہی مل گئیں بے ارادہ نہ ...

    مزید پڑھیے

    دل بیتاب مرگ ناگہاں باقی نہ رہ جائے

    دل بیتاب مرگ ناگہاں باقی نہ رہ جائے محبت کا یہ نازک امتحاں باقی نہ رہ جائے سنبھل کر پھونک اے برق تپاں میرے نشیمن کو کہیں عجلت میں شاخ آشیاں باقی نہ رہ جائے مدد اے جوش گریہ خون دل شامل ہے اشکوں میں کوئی اس سلسلہ کی داستاں باقی نہ رہ جائے محبت کی حدیں اس عالم امکاں سے بالا ...

    مزید پڑھیے

    تیری چشم ستم ایجاد سے ڈر لگتا ہے

    تیری چشم ستم ایجاد سے ڈر لگتا ہے یہ غلط ہے کسی افتاد سے ڈر لگتا ہے اس لیے چپ ہوں کہ آداب قفس پر ہے نظر کون کہتا ہے کہ صیاد سے ڈر لگتا ہے ہم تو لذت کش آزار ہیں اے جوش وفا اور ہیں وہ جنہیں بیداد سے ڈر لگتا ہے تیرے جلووں کو کہیں عام نہ کر دیں اے دوست اس لیے مانی و بہزاد سے ڈر لگتا ...

    مزید پڑھیے

    میری نظر نظر میں ہیں منظر جلے ہوئے

    میری نظر نظر میں ہیں منظر جلے ہوئے ابھریں گے حرف حرف سے پیکر جلے ہوئے شعلوں کا رقص آب رواں تک پہنچ گیا دریا پہ بہہ کے آئے ہیں چھپر جلے ہوئے ہر ذرہ اس زمین کا لو دے رہا ہے آج کل آپ کو ملیں گے سمندر جلے ہوئے مظلوم و بے قصور جنہیں کہہ رہے ہیں آپ نکلے ہیں ان کے گھر سے بھی خنجر جلے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2