Mushafi Ghulam Hamdani

مصحفی غلام ہمدانی

اٹھارہویں صدی کے بڑے شاعروں میں شامل، میرتقی میر کے ہم عصر

One of the most prolific 18th century poets, contemporary of Mir Taqi Mir.

مصحفی غلام ہمدانی کی غزل

    جمنا میں کل نہا کر جب اس نے بال باندھے

    جمنا میں کل نہا کر جب اس نے بال باندھے ہم نے بھی اپنے دل میں کیا کیا خیال باندھے ایسا شکوہ اس کی صورت میں ہے کہ ناگہ آوے جو سامنے سے دست مجال باندھے آنکھوں سے گر کرے وہ زلفوں کو ٹک اشارہ آویں چلے ہزاروں وحشی غزال باندھے عیسیٰ و خضر تک بھی پہنچے اجل کا مژدہ تو تیغ اگر کمر پر بہر ...

    مزید پڑھیے

    اے عشق تیری اب کے وہ تاثیر کیا ہوئی

    اے عشق تیری اب کے وہ تاثیر کیا ہوئی شور جنوں کدھر گیا زنجیر کیا ہوئی دیوانہ پن کا میرے جو کرتے نہیں علاج تدبیر کرنے والوں کی تدبیر کیا ہوئی آگو کی طرح آپ جو اب بولتے نہیں کیا جانے ایسی ہم سے وہ تقصیر کیا ہوئی ہم نے تو تم کو دوڑ کے کولی میں بھر لیا فرمائیے اب آپ کی شمشیر کیا ...

    مزید پڑھیے

    کبھی تو بیٹھوں ہوں جا اور کبھی اٹھ آتا ہوں

    کبھی تو بیٹھوں ہوں جا اور کبھی اٹھ آتا ہوں منوں ہوں آپ ہی پھر آپھی روٹھ جاتا ہوں معاملہ تو ذرا دیکھیو تو چاہت کا مجھے ستاوے ہے وہ اس کو میں ستاتا ہوں رکا ہوا وہ مجھے دیکھ کر جو بولے ہے تو بولتا نہیں میں اس سے سر ہلاتا ہوں پر اتنے میں جو میں سوچوں ہوں یہ نہ رک جاوے زباں پہ اپنی ...

    مزید پڑھیے

    آتا ہے یہی جی میں فریاد کروں روؤں

    آتا ہے یہی جی میں فریاد کروں روؤں رونے ہی سے ٹک اپنا دل شاد کروں روؤں کس واسطے بیٹھا ہے چپ اتنا تو اے ہم دم کیا میں ہی کوئی نوحہ بنیاد کروں روؤں یوں دل میں گزرتا ہے جا کر کسی صحرا میں خاطر کو ٹک اک غم سے آزاد کروں روؤں اس واسطے فرقت میں جیتا مجھے رکھا ہے یعنی میں تری صورت جب یاد ...

    مزید پڑھیے

    کچھ اپنی جو حرمت تجھے منظور ہو اے شیخ

    کچھ اپنی جو حرمت تجھے منظور ہو اے شیخ تو بحث نہ مے خواروں سے چل دور ہو اے شیخ مسجد میں ذرا وقت سحر دیکھ تو جا کر شاید کوئی اس چشم کا مخمور ہو اے شیخ صد دانۂ تسبیح رکھے ہاتھ میں اپنے چونکے تو جو یک دانۂ انگور ہو اے شیخ تو مجھ کو کہے ایک میں سو تجھ کو سناؤں اے کاش کہ اتنا مجھے مقدور ...

    مزید پڑھیے

    وہ چاندنی رات اور وہ ملاقات کا عالم

    وہ چاندنی رات اور وہ ملاقات کا عالم کیا لطف میں گزرا ہے غرض رات کا عالم جاتا ہوں جو مجلس میں شب اس رشک پری کی آتا ہے نظر مجھ کو طلسمات کا عالم برسوں نہیں کرتا تو کبھو بات کسو سے مشتاق ہی رہتا ہے تری بات کا عالم کر مجلس خوباں میں ذرا سیر کہ باہم ہوتا ہے عجب ان کے اشارات کا ...

    مزید پڑھیے

    کب صبا سوئے اسیران قفس آتی ہے

    کب صبا سوئے اسیران قفس آتی ہے کب یہ ان تک خبر آمد گل لاتی ہے دختر رز کی ہوں صحبت کا مباشر کیوں کر ابھی کمسن ہے بہت مرد سے شرماتی ہے کیونکہ فربہ نہ نظر آوے تری زلف کی لٹ جونک سی یہ تو مرا خون ہی پی جاتی ہے جسم نے روح رواں سے یہ کہا تربت میں اب مجھے چھوڑ کے تنہا تو کہاں جاتی ہے کیا ...

    مزید پڑھیے

    اول تو ترے کوچے میں آنا نہیں ملتا

    اول تو ترے کوچے میں آنا نہیں ملتا آؤں تو کہیں تیرا ٹھکانا نہیں ملتا ملنا جو مرا چھوڑ دیا تو نے تو مجھ سے خاطر سے تری سارا زمانا نہیں ملتا آوے تو بہانے سے چلا شب مرے گھر کو ایسا کوئی کیا تجھ کو بہانا نہیں ملتا کیا فائدہ گر حرص کرے زر کی تو ناداں کچھ حرص سے قاروں کا خزانا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    ابھی اپنے مرتبۂ حسن سے میاں با خبر تو ہوا نہیں

    ابھی اپنے مرتبۂ حسن سے میاں با خبر تو ہوا نہیں کہ غزل سرا ترے باغ میں کوئی مرغ تازہ نوا نہیں جو گلی میں یار کی جاؤں ہوں تو اجل کہے ہے یہ رحم کھا تو ستم رسیدہ نہ جا ادھر کوئی زندہ واں سے پھرا نہیں وہ غریب و بے کس و زار تھا تجھے اس کا دیتا ہوں میں پتہ ترے کشتہ کا وہ مزار تھا کہ چراغ ...

    مزید پڑھیے

    اے شب ہجر کہیں تیری سحر ہے کہ نہیں

    اے شب ہجر کہیں تیری سحر ہے کہ نہیں نالۂ نیم شبی تجھ میں اثر ہے کہ نہیں جان پر اپنی میں کھیلا ہوں جدائی میں تری بے خبر تجھ کو بھی کچھ اس کی خبر ہے کہ نہیں ایک مدت ہوئی ہم وصف کمر کرتے ہیں پر یہ معلوم نہیں اس کے کمر ہے کہ نہیں رکھ نہ سوزن کو ذرا دیکھ تو لے اے جراح قابل بخیہ مرا زخم ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 5