Mushafi Ghulam Hamdani

مصحفی غلام ہمدانی

اٹھارہویں صدی کے بڑے شاعروں میں شامل، میرتقی میر کے ہم عصر

One of the most prolific 18th century poets, contemporary of Mir Taqi Mir.

مصحفی غلام ہمدانی کی غزل

    آج پلکوں کو جاتے ہیں آنسو

    آج پلکوں کو جاتے ہیں آنسو الٹی گنگا بہاتے ہیں آنسو آتش دل تو خاک بجھتی ہے اور جی کو جلاتے ہیں آنسو خون دل کم ہوا مگر جو مرے آج تھم تھم کے آتے ہیں آنسو جب تلک دیدہ گریہ ساماں ہو دل میں کیا جوش کھاتے ہیں آنسو گوکھرو پر تمہاری انگیا کے کس کے یہ لہر کھاتے ہیں آنسو تیری پازیب کے جو ...

    مزید پڑھیے

    جب تک یہ محبت میں بد نام نہیں ہوتا

    جب تک یہ محبت میں بد نام نہیں ہوتا اس دل کے تئیں ہرگز آرام نہیں ہوتا عالم سے ہمارا کچھ مذہب ہی نرالا ہے یعنی ہیں جہاں ہم واں اسلام نہیں ہوتا کب وعدہ نہیں کرتیں ملنے کا تری آنکھیں کس روز نگاہوں میں پیغام نہیں ہوتا بال اپنے بڑھاتے ہیں کس واسطے دیوانے کیا شہر محبت میں حجام نہیں ...

    مزید پڑھیے

    خواب تھا یا خیال تھا کیا تھا

    خواب تھا یا خیال تھا کیا تھا ہجر تھا یا وصال تھا کیا تھا میرے پہلو میں رات جا کر وہ ماہ تھا یا ہلال تھا کیا تھا چمکی بجلی سی پر نہ سمجھے ہم حسن تھا یا جمال تھا کیا تھا شب جو دل دو دو ہاتھ اچھلتا تھا وجد تھا یا وہ حال تھا کیا تھا جس کو ہم روز ہجر سمجھے تھے ماہ تھا یا وہ سال تھا کیا ...

    مزید پڑھیے

    رات پردے سے ذرا منہ جو کسو کا نکلا

    رات پردے سے ذرا منہ جو کسو کا نکلا شعلہ سمجھا تھا اسے میں پہ بھبھوکا نکلا مہر و مہ اس کی پھبن دیکھ کے حیران رہے جب ورق یار کی تصویر دورو کا نکلا یہ ادا دیکھ کے کتنوں کا ہوا کام تمام نیمچہ کل جو ٹک اس عربدہ جو کا نکلا مر گئی سرو پہ جب ہو کے تصدق قمری اس سے اس دم بھی نہ طوق اپنے گلو ...

    مزید پڑھیے

    وعدوں ہی پہ ہر روز مری جان نہ ٹالو

    وعدوں ہی پہ ہر روز مری جان نہ ٹالو ہے عید کا دن اب تو گلے ہم کو لگا لو ہر وقت میاں خوب نہیں گالیاں دینی کیا بکتے ہو تم یاوہ زباں اپنی سنبھالو پہنچے کو چھڑاؤ گے بڑے مرد ہو ایسے تم پہلے مرے ہاتھ سے دامن تو چھڑا لو دیوانے کا ہے تیرے یہ عالم کہ پری بھی دیکھ اس کو یہ کہتی ہے کوئی اس کو ...

    مزید پڑھیے

    غزل کہنے کا کس کو ڈھب رہا ہے

    غزل کہنے کا کس کو ڈھب رہا ہے وہ رتبہ عشق کا اب کب رہا ہے بشاشت برگ گل میں ہے جو اتنی کسی کے لب پر اس کا لب رہا ہے مشوش شکل سے اس گل کی ظاہر یہ ہوتا ہے کہیں وہ شب رہا ہے پرستش ہی میں شب آخر ہوئی ہے ہمارے پاس وہ بت جب رہا ہے تمہارے عہد میں اے کافرو ہائے کہاں وہ ملت و مذہب رہا ہے مرا ...

    مزید پڑھیے

    آج خوں ہو کے ٹپک پڑنے کے نزدیک ہے دل

    آج خوں ہو کے ٹپک پڑنے کے نزدیک ہے دل نوک نشتر ہو تو ہاں قابل تحریک ہے دل اے فلک تجھ کو قسم ہے مری اس کو نہ بجھا کہ غریبوں کو چراغ شب تاریک ہے دل ورم داغ کئی سامنے رکھ کر اس کے عشق بولا ''یہ اٹھا لے تری تملیک ہے دل'' مجھ کو حیرت ہے کہ کی عمر بسر اس نے کہاں اس جہالت پہ تو نے ترک نہ ...

    مزید پڑھیے

    دیکھ اس کو اک آہ ہم نے کر لی

    دیکھ اس کو اک آہ ہم نے کر لی حسرت سے نگاہ ہم نے کر لی کیا جانے کوئی کہ گھر میں بیٹھے اس شوخ سے راہ ہم نے کر لی بندہ پہ نہ کر کرم زیادہ بس بس تری چاہ ہم نے کر لی جب اس نے چلائی تیغ ہم پر ہاتھوں کی پناہ ہم نے کر لی نخوت سے جو کوئی پیش آیا کج اپنی کلاہ ہم نے کر لی زلف‌ و رخ مہوشاں کی ...

    مزید پڑھیے

    جب کہ بے پردہ تو ہوا ہوگا

    جب کہ بے پردہ تو ہوا ہوگا ماہ پردے سے تک رہا ہوگا کچھ ہے سرخی سی آج پلکوں پر قطرۂ خوں کوئی بہا ہوگا میرے نامے سے خوں ٹپکتا تھا دیکھ کر اس نے کیا کہا ہوگا گھورتا ہے مجھے وہ دل کی مرے میری نظروں سے پا گیا ہوگا یہی رہتا ہے اب تو دھیان مجھے واں سے قاصد مرا چلا ہوگا جس گھڑی تجھ کو ...

    مزید پڑھیے

    آئے ہو تو یہ حجاب کیا ہے

    آئے ہو تو یہ حجاب کیا ہے منہ کھول دو نقاب کیا ہے سینے میں ٹھہرتا ہی نہیں دل یارب اسے اضطراب کیا ہے کل تیغ نکال مجھ سے بولا تو دیکھ تو اس کی آب کیا ہے معلوم نہیں کہ اپنا دیواں ہے مرثیہ یا کتاب کیا ہے جو مر گئے مارے لطف ہی کے پھر ان پہ میاں عتاب کیا ہے اوروں سے تو ہے یہ بے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 5 سے 5