Mushafi Ghulam Hamdani

مصحفی غلام ہمدانی

اٹھارہویں صدی کے بڑے شاعروں میں شامل، میرتقی میر کے ہم عصر

One of the most prolific 18th century poets, contemporary of Mir Taqi Mir.

مصحفی غلام ہمدانی کی غزل

    ہے ماہ کہ آفتاب کیا ہے

    ہے ماہ کہ آفتاب کیا ہے دیکھو تو تہ نقاب کیا ہے میں نے تجھے تو نے مجھ کو دیکھا اب مجھ سے تجھے حجاب کیا ہے آئے ہو تو کوئی دم تو بیٹھو اے قبلہ یہ اضطراب کیا ہے اس بن ہمیں جاگتے ہی گزری جانا بھی نہ یہ کہ خواب کیا ہے مجھ کو بھی گنے وہ عاشقوں میں اس بات کا سو حساب کیا ہے سیپارۂ دل کو ...

    مزید پڑھیے

    اس عشق و جنوں میں نہ گریبان کا ڈر ہے

    اس عشق و جنوں میں نہ گریبان کا ڈر ہے یہ عشق وہ ہے جس میں ہمیں جان کا ڈر ہے آساں نہیں دریائے محبت سے گزرنا یاں نوح کی کشتی کو بھی طوفان کا ڈر ہے بازار سے گزرے ہے وہ بے پردہ کہ اس کو ہندو کا نہ خطرہ نہ مسلمان کا ڈر ہے دل خون میں تڑپے ہے ترے تیر نگہ سے پر اس پہ بھی ظالم ترے پیکان کا ڈر ...

    مزید پڑھیے

    غصے کو جانے دیجے نہ تیوری چڑھائیے

    غصے کو جانے دیجے نہ تیوری چڑھائیے میں گالیاں بھی آپ کی کھائیں اب آئیے رفتار کا جو فتنہ اٹھا تھا سو ہو چکا اب بیٹھے بیٹھے اور کوئی فتنہ اٹھائیے میرا تو کیا دہن ہے جو بوسے کا لوں میں نام گالی بھی مجھ کو دیجے تو گویا جلائیے بولا کسی سے میں بھی تو کیا کچھ غضب ہوا اتنی سی بات کا نہ ...

    مزید پڑھیے

    آہ دیکھی تھی میں جس گھر میں پری کی صورت

    آہ دیکھی تھی میں جس گھر میں پری کی صورت اب نظر آئے ہے واں نوحہ گری کی صورت نہ وہ انداز نہ آواز نہ عشوہ نہ ادا یک بہ یک مٹ گئی یوں جلوہ گری کی صورت اب خیال اس کا وہاں آنکھوں میں پھرتا ہے مری کوئی پھرتا تھا جہاں کبک دری کی صورت اس کے جانے سے مرا دل ہے مرے سینے میں دم کا مہمان چراغ ...

    مزید پڑھیے

    رخ زلف میں بے نقاب دیکھا

    رخ زلف میں بے نقاب دیکھا میں تیرہ شب آفتاب دیکھا محروم ہے نامہ دار دنیا پانی سے تہی حباب دیکھا سرخی سے ترے لبوں کی ہم نے آتش کو میان آب دیکھا قاصد کا سر آیا اس گلی سے نامے کا مرے جواب دیکھا جانا یہ ہم نے وفات کے بعد دیکھا جو جہاں میں خواب دیکھا آفت کا نشانہ ہو چکا تھا میں دل کی ...

    مزید پڑھیے

    اہل دل گر جہاں سے اٹھتا ہے

    اہل دل گر جہاں سے اٹھتا ہے اک جہاں جسم و جاں سے اٹھتا ہے چلو اے ہم رہو غنیمت ہے جو قدم اس جہاں سے اٹھتا ہے جمع رکھتے نہیں، نہیں معلوم خرچ اپنا کہاں سے اٹھتا ہے گر نقاب اس کے منہ سے اٹھی نہیں شور کیوں کارواں سے اٹھتا ہے وائے بے طاقتی و بے صبری پردہ جب درمیاں سے اٹھتا ہے پھر وہیں ...

    مزید پڑھیے

    بیٹھے بیٹھے جو ہم اے یار ہنسے اور روئے

    بیٹھے بیٹھے جو ہم اے یار ہنسے اور روئے آ گیا یاد تو اک بار ہنسے اور روئے شعر تر پڑھنے سے یاروں میں ہمیں کیا حاصل مگر اتنا ہے کہ دو چار ہنسے اور روئے شادی و غم کی جو اٹھ جائے جہاں سے رہ و رسم پھر تو کوئی بھی نہ زنہار ہنسے اور روئے ناتوانی نے کیا اس کو تو نقش قالیں کیا تری چشم کا ...

    مزید پڑھیے

    آساں نہیں ہے تنہا در اس کا باز کرنا

    آساں نہیں ہے تنہا در اس کا باز کرنا لازم ہے پاسباں سے اب ہم کو ساز کرنا گر ہم مشیر ہوتے اللہ کے تو کہتے یعنی وصال کی شب یا رب دراز کرنا اس کا سلام مجھ سے اب کیا ہے گردش رو طفلی میں میں سکھایا جس کو نماز کرنا ازبسکہ خون دل کا کھاتا ہے جوش ہر دم مشکل ہوا ہے ہم کو اخفائے راز ...

    مزید پڑھیے

    آہ ہم راز کون ہے اپنا

    آہ ہم راز کون ہے اپنا بخت ناساز کون ہے اپنا کس کے کہلائیں ہم کہ تیرے سوا بت طناز کون ہے اپنا بات کہہ دے ہے وہ تہ دل کی ایسا غماز کون ہے اپنا لے اڑتے تو ہی گر نہ ہم کو تو پھر شوق پرواز کون ہے اپنا وصل ہوتا نہیں، نہیں معلوم خلل انداز کون ہے اپنا بولا دیکھ آئنہ وہ حیرت سے چہرہ ...

    مزید پڑھیے

    اول تو یہ دھج اور یہ رفتار غضب ہے

    اول تو یہ دھج اور یہ رفتار غضب ہے تس پہ ترے پازیب کی جھنکار غضب ہے کیوں کر نہ تجھے دوڑ کے چھاتی سے لگا لوں پھولوں کا گلے میں ترے یہ ہار غضب ہے جب دیکھوں ہوں کرتی ہے مرے دل کو پریشاں آشفتگیٔ طرۂ طرار غضب ہے اے کاش یہ آنکھیں مجھے یہ دن نہ دکھاتیں اس شوق پہ محرومیٔ دیدار غضب ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 5