Mushaf Iqbal Tausifi

مصحف اقبال توصیفی

نئی غزل کے ممتاز شاعر

Prominent poet of New Ghazal trend

مصحف اقبال توصیفی کی نظم

    میں یہ چاہتا ہوں

    میں یہ چاہتا ہوں سمندر کے ساحل پہ بھیگی ہوئی ریت پر گال رکھے چند لمحے اسی طرح لیٹا رہوں مگر وقت کی بھیڑ میں مرے پاس اپنے لیے چند لمحے کہاں ہواؤں کے اس شور میں میرے گریبان کی دھجیاں اب کہاں سمندر کی آغوش میں اتنی لہریں ہیں ایک بھی لہر ایسی نہیں جو لے جائے مجھ کو بہا کر اک ایسے جزیرے ...

    مزید پڑھیے

    کہانیاں تمام شب

    کہانیاں تمام شب تمام شب کہانیاں بجھے ہوئے چراغ نے اداس رات سے کہی اداس رات نے لکھیں تمام شب کہانیاں عروج کی بساط پر زوال کی کہانیاں کہانیاں تمام شب وہ جسم یا عذاب ہے وہ آنکھ یا کتاب ہے وہ ہونٹ یا گلاب ہے کتاب میں عذاب کی گلاب کی کہانیاں تمام شب کہانیاں کہانیاں تمام شب

    مزید پڑھیے

    تجربہ گاہ

    پتھر کے کمرے میں اس نے مٹی دھات نمک کو ایٹم اور اس سے بھی چھوٹے ذروں میں بانٹا اک اونچی میز پہ لیٹے وقت کو کلوروفارم سونگھا کر اس کے ایک ایک عضو کو کاٹا صدیوں برسوں اور مہینوں اک اک پل میں ایک تکونے چمٹے سے ایک سلائڈ پر میری کچھ سانسیں رکھیں شیشے کی نلکی سے میری گردن کو ہلایا دو ...

    مزید پڑھیے

    وقت کی ریل گاڑی

    میں تجھے ڈھونڈنے نکلا گھر سے اور اپنا ہی پتہ بھول گیا اب نہ وہ تو ہے نہ میں نہ وہ راستہ ہے نہ پیڑ نہ وہ مندر ہے نہ کٹیا نہ چراغ اب نہ وہ تو ہے نہ میں اور وہ لوگ کہاں کیسے ہیں میں جنہیں بھول کے خوش ہوں جو مجھے یاد بھی آئیں کیسی دیوار ہے یہ نیم فراموشی کی آؤ دیوار گرائیں اور اگر یہ نہ ...

    مزید پڑھیے

    صحرا صحرا

    میں کیوں اک کمرے میں اک کرسی پر بیٹھا اپنے اندر چلتے چلتے تھک جاتا ہوں بچپن کی تصویریں یادیں گھٹنے میں جو چوٹ لگی تھی ہاتھ سے مٹی چھان کے بہتے خون کو کیسے روک لیا تھا وہ مکتب، کالج، دفتر، گھر اوبڑ کھابڑ رستے گرتے پڑتے کیا بتلاؤں کیسے اپنے گھر آیا ہوں کن بازاروں سے گزرا ہوں ہر ...

    مزید پڑھیے

    جب میں اپنے اندر جھانک رہا تھا

    جب میں اپنے اندر جھانک رہا تھا ایک کنواں تھا ڈول میں اس میں ڈال رہا تھا اک رسی سانسوں کی میرے اشکوں میں بھیگی اوپر نیچے آتی جاتی میں اس کو باہر وہ مجھ کو اندر کھینچ رہا تھا!!

    مزید پڑھیے

    ایک نظم تمہارے نام

    خزاں کی آہٹیں سن رہی ہو میرا جسم بجھ رہا ہے میری سانسوں کے پھول پتے مرجھا رہے ہیں میں وقت کی شاخ سے نہ جانے کب ٹوٹوں اور بکھر جاؤں میری کتابیں باتیں تصویریں کسی مائکرو فلم آڈیو یا ویڈیو کیسٹ پر یا کسی سیڈی میں محفوظ کر لو دیکھو اب بھی وقت ہے مگر وقت بہت کم ہے مجھے آخری بار چھو ...

    مزید پڑھیے

    درد کا نام پتہ مت پوچھو

    درد کا نام پتہ مت پوچھو درد اک خیمۂ افلاک اس اقلیم پہ ہے سایہ کناں تم اسے قطب شمالی کہہ لو تم جدھر آنکھ اٹھا کر دیکھو برف ہی برف ہے اور رات ہی رات ہم وہ موجود کہ جن میں شاید زندگی بننے کے آثار ابھی باقی تھے حشرات ایسے کہ جن کو شاید روشنی اور حرارت کی ضرورت تھی ابھی اس اندھیرے میں ...

    مزید پڑھیے

    وقت

    وہ چلتا رہا اس کرۂ ارض کی گیند پر ایک پاؤں رکھے دوسرا پاؤں اس کا خلا میں۔۔۔ گیند آگے بڑھاتے ہوئے توازن بھی قائم رہے۔۔۔ قیامت کو ٹالے ہوئے۔۔۔ وہ چلتا رہا زیست اور موت کے دائرے کھینچتا۔۔۔ ایک ہی سمت میں ایک رفتار سے کسی بازی گر ایک سرکس کے نٹ کی طرح چاند سورج ستاروں کے گولے کبھی ...

    مزید پڑھیے

    کہی ان کہی

    کچھ نہ کہنا بھی بہت کہنا ہے لفظ سینے میں ہی رک جائیں تو پھر بات کہاں ہوتی ہے لیکن الفاظ کے اطراف جو وہ ایک چشم نگراں ہوتی ہے اسی چشم نگراں کے صدقے آنکھ اگر خشک نظر آئے بہت روتی ہے زندگی خواب ہے تصویر تری سوتی ہے خواب تھا یا عالم بیداری تھا تیری تصویر تھی یا تو، تجھے کب دیکھا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3