Mushaf Iqbal Tausifi

مصحف اقبال توصیفی

نئی غزل کے ممتاز شاعر

Prominent poet of New Ghazal trend

مصحف اقبال توصیفی کی نظم

    طفل آرزو

    ایک مجوف عدسے سے میں دنیا کو دیکھ رہا تھا جنگل میداں ریت کے ٹیلے ثقل‌ زمیں سے اپنا رشتہ توڑ رہے تھے دور کنارے دریا کے ساتھ پرانا چھوڑ رہے تھے بہتی ہواؤں کے دامن کو گرتے پربت تھام رہے تھے اور ان سب کے پیچھے میری آنکھیں پھیل گئی تھیں میری ناک بہت لمبی تھی وہ بولی پہچانو آہستہ سے ...

    مزید پڑھیے

    سوانح عمری

    میں نے اپنی عمر کا سرکش گھوڑا یادوں کے اک پیڑ سے باندھا میرا لنگڑاتا بڑھاپا ستر اس کے سائے سائے پچپن میرا گھر میرا دفتر میری جوانی میرا بچپن تئیس بائیس ان کے پیچھے تیرہ بارہ میرے گاؤں کا چوبارا۔۔۔ مجھ کو تو یہ سارا منظر پل پل اپنا روپ بدلتا منظر دھندلا دھندلا سا لگتا ہے میری ...

    مزید پڑھیے

    مراجعت

    میں اپنے جسم کے باہر کھڑا ہوں ان آنکھوں کے دریچے سے تو اب بسیں سڑکیں ملوں کی چمنیاں میونسپلٹی کا وہ نل کوڑھی بھکاری دھنی مل کا بہت اونچا مکاں کچھ بھی نظر آتا نہیں اب ان آنکھوں میں میری ہزاروں انجنوں کا شور ہے کالا دھواں ہے مگر دل کو لبھاتا ہے ابھی تک نیلگوں دوری کا منظر چاند ...

    مزید پڑھیے

    دکھ کی آنکھیں نیلی ہیں

    وہ ایسے روٹھی ہے مجھ سے مجھے پاس نہیں آنے دے گی کہتی ہے دور ہٹو لیکن مجھے دور نہیں جانے دے گی جب اس کے پاس میں آتا ہوں کیا کہتا ہوں کچھ یاد نہیں بس یاد اگر ہے اتنا ہے ان آنکھوں میں اس تکیے پر کچھ آنسو ہیں کچھ موتی ہیں یا ان آنکھوں کی جھیلوں میں اک کشتی ہے کچھ تارے ہیں یہ تارے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    میری دنیا

    میں کہتا ہوں دنیا بے وقعت بے مایہ ہے اور یہ میرا دکھ سکھ بھی کیا یہ تو بس اک دھوپ کا ٹکڑا بادل کا سایہ ہے میں نے یہ کہنے سے پہلے گیتا یا قرآن پہ ہاتھ نہیں رکھا لیکن سچ کہتا ہوں اور اگر میں سچ کہتا ہوں تو مجھ کو یہ دنیا کیوں اتنی بھاتی ہے کیوں میں اچانک سوتے سوتے آنکھیں ملتے اٹھ ...

    مزید پڑھیے

    اجنبی

    دن بھر لوگ مرے کپڑوں سے ملتے ہیں میری ٹوپی سے ہاتھ ملا کر ہنستے ہیں میرے جوتے پہن کے میری سانسوں پر چلتے ہیں اپنے آپ سے کب بچھڑا تھا دن کے اس انبوہ میں مجھ کو کچھ بھی یاد نہیں آتا رات کو اپنے ننگے جسم کے بستر پر نیند نہیں آتی

    مزید پڑھیے

    وقت کو کس نے روکا ہے

    تجھ سے جانے کتنی باتیں کرنی تھیں تیرے بالوں کی اک لٹ کو تیرے ہونٹوں پر سے اپنے ہونٹوں تک لانا تھا تیرے سرہانے ان دیکھے خوابوں کی قطاریں تیری آنکھوں کے ساگر میں نیندوں کی کشتی میں تیرا مانجھی کتنے دیپوں کا یہ سفر جو نیا انوکھا، انجانا تھا لیکن صبح کی کرنوں کے طوفاں کا کوئی ٹھکانہ ...

    مزید پڑھیے

    پانی کا کھیل

    پانی پر اک تصویر ہماری ابھری تھی اک تصویر زمانے کی اور کبھی یہ تصویریں آپس میں گڈمڈ ہو جاتیں اک دوجے میں گھل مل جاتیں پھر سے جدا ہو جاتی تھیں پانی کے اک قطرے نے ان آنکھوں میں دیکھو کیسا کھیل رچایا جانے کیسا پانی تھا اس پانی پر بہتے کیسے کیسے بازار لگے تھے کیسی کیسی تصویریں جانے ...

    مزید پڑھیے

    اندھا بھکاری

    کتنے سورج ڈوبے کتنے موسم بیتے سانسیں جوڑیں دھاگے کی صورت میں آنکھیں پھوڑیں اک جھولی کو سیتے سیتے تیری گلی میں آیا تیرا گھر اونچا تھا تو نے بھی میری جھولی میں اک کھوٹا سکہ پھینکا تھا

    مزید پڑھیے

    ہار جیت

    میں نے ریس میں ایک گھوڑے پر ہزار روپے لگائے اور ہار گیا میں نے اپنے بیٹے کو وہ سب کچھ دیا۔۔۔ جو دے سکتا تھا ساری آسائشیں ترک کر کے لیکن بھول گیا اسے اپنی زندگی جینا ہے منظر بدلتے رہے پھر وہ آ گئی اور بھی لوگ آئے لیکن ہر شخص کے ساتھ اس کے اپنے سائے تھے اور جب سارے سائے رخصت ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3