مقدس ملک کی غزل

    خون سے گوندھا مٹی کو اور آدم کو تعمیر کیا

    خون سے گوندھا مٹی کو اور آدم کو تعمیر کیا اوپر والے نے بھی اپنے خوابوں کو تعبیر کیا تنہائی کے ساز پہ چھیڑے سارے درد صداؤں کے وحشت کے آنچل سے لپٹے اور اسے زنجیر کیا جس لہجے کو بھی جھٹلایا ہاتھ میں اس کے خاک لگی جس ابرو تک ہاتھ بڑھایا ہم نے اس کو تیر کیا اوپر جانے والے رستے پستی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2