باز دید
تم جو آؤ تو دھندلکے میں لپٹ کر آؤ پھر وہی کیف سر شام لیے جب لرزتے ہیں صداؤں کے سمٹتے سائے اور آنکھیں خلش حسرت ناکام لیے ہر گزرتے ہوئے لمحے کو تکا کرتی ہیں خود فریبی سے ہم آغوش رہا کرتی ہیں تم جو آؤ تو اندھیرے میں لپٹ کر آؤ شبنمی شیشوں کو سہلائیں لچکتی شاخیں اور مہتاب زمستاں کوئی ...